کئی سال پہلے ایک عزیز کو "برٹرنڈ رسل” کی کتاب نشاط کی فتح (Conquest of Happiness) عنایت کی۔ سمجھا کہ پڑھیں گے اور نشاط سے شخصی، سماجی اور علمی زاویوں سے لطف اٹھائیں گے۔
یہ کتاب کافی حد تک ایک بہترین کتاب ہے جہاں نشاط کے کئی پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔ اُس عزیز نے کتاب اپنے سرہانے رکھی۔ 6 مہینے بعد کتاب واپس کرنا چاہی، تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کتاب پڑھی ہی نہیں۔ یہ جان کر شدید دھچکا سا لگا کہ انہوں نے کتاب محض اس بنا پر نہیں پڑھی کہ کہیں یہ کتاب اس کے علمی دائروں؍ زندانوں کو توڑ نہ دے۔ یعنی وہ اپنی رائے اور نظریے کو بدلنے سے ڈرتا تھا، اور یہ عام سی کتاب اسے فلسفے کی کوئی بڑی کتاب لگی تھی۔ اس حوالہ سے اس نے کہا: میں سمجھا کہ کہیں یہ کتاب مجھے خراب نہ کردے!‘‘
قارئین، ہم نے اپنے اردگرد مختلف دائرے کھینچے ہوتے ہیں۔ یہ دائرے سماجی، نفسیاتی اور ذہنی دونوں طرح کے ہیں۔ ہم ان دائروں میں آرام فرما رہے ہوتے ہیں۔ ان مختص دائروں سے ہم خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے دائروں کو انگریزی میں ’’کمفرٹ زونز‘‘ کہا جاتا ہے، جنہیں توڑنے سے نئے دریچے وا ہوتے ہیں اور پھر ان دریچوں سے نئی ہوا اور روشی یعنی نئے خیالات و افکار آتے ہیں، جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ خیالات یا افکار ہمارے مذکورہ ’’کمفرٹ زونز‘‘ سے ہمیں نکالتے ہیں اور ہم بے چین ہوجاتے ہیں۔
پھر ہم علم و تحقیق کے نام سے اپنے ان پہلے سے معین دائروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور باہر سے اگر کوئی جھونکا آئے بھی، تو اسے اپنے دائرے کے اندر فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے دائرے بند معاشروں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بند معاشرے وہ جن کو ایک خاص لکیر سے آگے سوچنے اور تحقیق کی جرأت نہیں ہوتی، اور ان کا علم تعصب سے آگے بڑھتا ہی نہیں۔ دراصل وہ ایک مقروض معاشرہ ہوتا ہے جہاں ہر چیز دوسروں سے لی جاتی ہے۔
یہ دائرے ان معاشروں یا قومیتوں میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جن کی تاریخی یادداشت، آبائی حکمت، آبائی نظامِ معاشرت اور تاریخی یادداشت کے رسل اور فروغ کے سارے راستے توڑ دیے گئے ہوں۔ ان یادداشتوں کے راستوں میں سب سے اہم اپنی زبان ہوتا ہے۔ ان معاشروں میں بھیڑ سے ہٹ کر بات کرنا دشمنی کو دعوت دینا ہے۔ وہ چوں کہ ’’اِنورڈ لوکنگ‘‘ (خود بین) ہوتے ہیں، اس لیے ہر اس شخص پر چڑھ دوڑتے ہیں جو کوئی نئی بات کرے، یا کوئی نیا کام کرے جو ان کے ان دائروں میں درست طور پر فٹ نہ ہو۔
یہ معاشرے اپنے لیے اس دنیا میں معانی تلاش کرنے کے لیے مختص ہدف کے ساتھ جب ہاتھ پاؤں مارنے لگ جاتے ہیں، تو ان کا بنیادی مقصد اپنی انا کو تسکین دینا ہوتا ہے کہ یہ انا اس دائرے میں رہنے کی وجہ سے کوئی نئی بات یا کام برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ ایک نرگسیت کے شکار ہوکر اپنے لیے ایک تخیلی مقام تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگتے ہیں اور جن کا علمی و فکری مقابلہ نہ کرسکیں، ان کو بیرونی ایجنٹ قرار دے کر خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگتے ہیں۔
کسی کو علم و تحقیق سے نفرت ایسے معاشروں میں کسی شخص کی وجہ سے ہونا عجیب نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ایسے معاشروں میں تحقیق کے نام پر عام لوگوں کو بے وقوف بنانا کوئی عجیب بات ہے۔ تعصب کی بنیاد پر وہ اپنا بیانیہ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے لیے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنا ان کا بنیادی مشغلہ ہوتا ہے۔ وہ جھٹ سے کسی بات کو کسی غیر کی بات سمجھ کر رد کردیتے ہیں، لیکن اگلی سانس میں اپنے تعصب کو سچ ثابت کرنے کے لیے کسی غیر کی کسی بات کا سہارا بھی لیتے ہیں۔
ایسے تضادات ہر سطح پر پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان معاشروں میں علم و تحقیق کی بحث محض کھیت کھات یعنی اِدھر کی اُدھر ملانا اور اُدھر کی اِدھر، اور سماجی عمل فقط ’’تھیپ تھاپ‘‘ یعنی افراتفری سے آگے نہیں بڑھتا۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔