اب بُری طرح یہ فکر رہنے لگی ہے کہ جی ٹی روڈ پر کوئی بیس کلومیٹر پرے شہر ’’بریکوٹ‘‘ میں بیٹھا ساتھی لمبے انتظار کی زحمت سے سوکھ نہ گیا ہو، اور ہمیں صلواتیں نہ سُنا رہا ہو۔ کہیں ہمارے ساتھ چلنے سے انکاری نہ ہو جائے۔ پھر ’’ہمارا کیا ہوگا کالیا……!‘‘ یہ ساتھی نہ صرف یہ کہ آگے ڈرائیونگ کا فریضہ ادا کرے گا، بلکہ ہمارے خیالات کی ترجمانی بھی کرے گا، اور علمی و فکری میدان میں ہماری رہنمائی فرمائے گا۔ جی ٹی روڈ پر واقع قصبوں جیسے بلوگرام، اوڈیگرام، مانیار اور غالیگے وغیرہ سے ’’بیک جُنبشِ ایکسیلیریٹر‘‘ گزر کر آخرِکار بریکوٹ پہنچ جاتے ہیں۔ شکر ہے ’’فرسٹ اِن کمانڈ‘‘ ساتھی فوری آکر گاڑی کی کمان سنبھالتے ہیں۔ ہم اُن کے ساتھ والی نشست کا خانہ پُر کرتے ہیں۔ فوری اُڑان بھرتے ہیں اور چٹکی بجاتے ہی بدنامِ زمانہ ’’لنڈاکی چیک پوسٹ‘‘ پہنچ جاتے ہیں۔ بدامنی کے دنوں میں لوگوں کا جمِ غفیر کوئی گاڑیوں میں بیٹھا، کوئی سڑک پر کھڑا، کوئی تھکا ماندا کھیتوں میں لیٹے اس چیک پوسٹ کو پار کرنے کی تمنا میں جس ذہنی اذیت سے گزرتا، اُس کا احوال یہاں درج کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ "ہمیں یاد ہے وہ سب کچھ ذرا ذرا۔” وہ چیک پوسٹ اب چشمِ زدن میں پار ہوتی ہے۔ تھانہ بائی پاس کراس کرتے ہیں، تو ساتھی کی ’’پاز‘‘ زبان چلنے لگتی ہے۔ وہ بھی یادِ ماضی کا ورق پلٹائے بیٹھا ہے۔ ہاتھ کا اِشارہ سڑک کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’یہ وہ بائی پاس ہے، جہاں دو تین دہائی قبل دِن دہاڑے ڈاکے پڑتے تھے۔ دو چار ڈکیت اچانک ساتھ والے کھیتوں سے خالی ہاتھ نکلتے، گاڑیوں کو روکتے، لوگوں سے پیسے اور سامان بٹورتے اور ٹہلتے ٹہلتے ’’معلوم ٹھکانوں‘‘ کی جانب پیش قدمی کرتے۔ رات کو تو یہ سڑک مکمل طور پر سنسان ہوجاتی۔ اب یہاں دونوں اطراف میں بڑے بڑے مکانات، ریسٹورنٹس اور گیس سٹیشنز کی بھی بھرمار ہے۔ چکدرہ پل چوکئی پہنچ جاتے ہیں۔ دریائے سوات کے بائیں جانب واقع یہ پل چوکئی کا علاقہ جس ضلع کا حصہ ہے، ہوگا، لیکن واقعتا واقع ہے تھانہ اور بٹ خیلہ کے سنگم پر۔ تاریخ کو چھوڑیں، نزدیکی دور میں اِس پُل چوکئی نے انقلاباتِ زمانہ کے بڑے بدلتے تیور دیکھے۔ مُنجھی کی فصل کے جو لامتناہی سلسلے یہاں کے طول و عرض میں اگست، ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں نظروں کا مرہم بنتے، خوشبوؤں سے فضاؤں کو مہکاتے اور قلب و روح کو گرماتے، اکتوبر دو ہزار دس کے سیلابوں نے اُس سونا اُگلنے والی مٹی کو ملیامیٹ کرکے سمندر بُرد کردیا اور پیچھے پتھر ریت اور بجری کے ڈھیروں ٹیلوں کو ڈیرا ڈالنے دیا (بدلے میں)۔ یہ معجزہ سنیں، اُس قیامت خیز سیلاب نے چکدرہ کے ’’مسلمان پُل‘‘ کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر دیر اور چترال کی وادیوں کو زیریں پاکستان کے جغرافیائی بوجھ سے منہا کرکے دم لیا۔ تاہم ’’کافر و شاطر‘‘ گوروں کے دور کے ایک پُرانے زنگ آلود پُل کو طوفانِ نوح (دوم) کی لہروں نے پہلو میں چھپا کر سلا دیا اور اپنی جگہ سے ہلنے نہ دیا۔ جب تک نیا پُل نہیں بنا۔ یہ ’’کافر پُل‘‘‘ سامان کی ترسیل سمیت آتے جاتے لوگوں کا بوجھ اُٹھاتا رہا۔ دنوں میں اِنہی سیلاب زدہ زمینوں نے ریسٹورنٹس، شادی ہالز، ڈرائی فروٹ مارکیٹ، این سی پی کاروں اور پراپرٹی ڈیلنگ سنٹرز کا عروج دیکھا۔ یہ کاروبار مزید جوبن پر آیا، تو ’’سوات موٹر وے‘‘ کا وسیع و عریض انٹرچینج بنانے کے لیے یہاں کی ’’سلیکشن‘‘ ہوئی، جس کے لیے اِس کاروباری دُنیا کو قربانی کا بکرا بنانا پڑا۔ مستقبلِ قریب میں یہ پوائنٹ، انٹرنیشنل لیول انٹرچینج کا منظر پیش تو کرے گا، لیکن سیمنٹ، بجری، سریے اور لوہے کے پھیلاؤ کے اِس طلاطم خیز طوفان میں ماحولیات کا جو حشر نشر ہو رہا ہے، کوئی اِس کے قیامت خیز اثرات کا ادراک بھی تو کرے، تب بات بن جائے۔
چکدرہ چوک کے ساتھ دریا کنارے تھوڑی دیر کے لیے علامتی واک کرتے ہیں۔ یہ دریا کالام سے لے کر بٹ خیلہ تک حضرتِ انسان کا مچایا ہوا گند بھی اپنے سینے میں سمو کر سمندر بُرد کرتا ہے۔ ’’تھینک یو، ریور سوات!‘‘ تم نہ ہوتے، تو گندگی میں ڈبکیاں کھا کھا کر ہم کب کے قبروں میں ڈمپ ہوئے ہوتے۔ ہمارے دائیں طرف دیر اور چترال کا در کھلا دعوتِ نظارہ دے رہا ہے۔ سامنے جی ٹی روڈ ہے، جس کے ایک طرف پشاور سے ہوتے ہوئے کرک، بنوں، ڈیرہ اور دوسری طرف جمرود اور لنڈی کوتل ہیں، جہاں کے دوست اپنے علاقوں کے متعلق بڑے سبز باغ دکھا کر ہمارا جی للچا رہے ہیں۔ بائیں طرف حال ہی میں ایک نئی نویلی سڑک بنی ہوئی ہے، جو ڈائریکٹ ہمارے چوہدری برادران کی راہ داریوں میں پہنچ کر دم لیتی ہے، جہاں ہماری ظاہری اور خفیہ، بے پردہ اور پسِ پردہ سرگرمیوں کے لیے کھلا ڈھلا میدان اور سامان تک میسر ہے، کچھ دیر کے لیے کنفیوز ہوتے ہیں کہ
مَیں کیہڑے پاسے جاواں
تے منجھی کتھے ڈاھواں؟
بہرحال جی ٹی روڈ اور چترال روڈ کو ’’بائے بائے‘‘ کہتے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے بائیں مڑتے ہیں۔ سامنے سڑک پر ٹول پلازہ نظر آتا ہے جس کے اوپر سبز رنگ کے خوبصورت سائن بورڈ پر سفید رنگ میں ’’سوات موٹر وے‘‘ لکھا ہوا دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اِس روڈ پر آلہ ڈھنڈ پلئی کے مقام پر 2 کلومیٹر طویل ٹنل مکمل ہے اور آگے کچھ حصے پر کام جاری ہے ۔ یہ مکمل ہوجائے، تو چکدرہ سے "کرنل شیرخان انٹرچینج” تک کا سفر 45 منٹ رہ جائے گا۔ ’’جسٹ ای میجن‘‘ کہاں شیطان کی آنت جتنی لمبی اور مصروف جی ٹی روڈ پر مردان تک تین گھنٹوں کا ’’تھکن آلود سفر‘‘ اور کہاں قدرتی نظاروں اور زرخیز باغات کے بیچ پینتالیس منٹ کا راستہ، ایک عجوبہ نہیں تو اور کیا ہے! کہتے ہیں کہ کوئی بیس ہزار گاڑیاں اس کو روزانہ استعمال کریں گی۔ فی الحال اس کو ’’موٹر وے‘‘ تو نہیں کہہ سکتے، البتہ یہ 81 کلومیٹر طویل دو طرفہ، دو رویہ سڑک ضرور ہے جو چکدرہ سے شروع ہوکر صوابی کے کرنل شیر انٹر چینج پر اسلام آباد موٹر وے سے بغل گیر ہوتی ہے۔ اسی سڑک کی وجہ سے فی الحال ہلکی گاڑیوں کو ملاکنڈ کی چوٹی لازمی طور پر سَر کرنے سے نجات ملی ہے۔ درگئی چیک پوسٹ کے پُلِ صراط سے گزرنے اور گاڑیوں کے بنتے بگڑتے لمبے صراطِ مستقیم کے بندھن میں ’’بند‘‘ رہنے سے مخلوقِ خدا کو گلو خلاصی ملی۔ سخا کوٹ کے مشہور ڈکیتوں اور اغواکاروں کا دور تو فوجی چیک پوسٹوں کے ساتھ ہی قصۂ پارینہ ہوا تھا، اب جگہ جگہ ناکوں اور ریاستی مافیاز کی جمعداریوں کا خاتمہ باالخیر ہوگیا ہے، اور مزید ہونے والا ہے۔ بازاروں، بستیوں اور آبادیوں کے بیچ میں ٹرانسپورٹ کے گزرنے سے کافی لوگوں کو چھٹکارا مل گیا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کی مخلوقِ خدا کو یہ آسانیاں مبارک ہوں۔ چشمِ زدن میں ٹنل سے نکل کر گاڑی جس علاقے کے زمین کو چھوکر آگے بڑھتی ہے، اقوامِ عالم اس کو پلئی کے نام سے پہچانتی ہیں۔ یہ زرخیز علاقہ اپنے ذائقہ دار مالٹوں کی وجہ سے ایک وسیع دنیا میں اپنی شناخت رکھتا ہے۔ کاٹلنگ انٹرچینج سے نکلتے ہیں، تو یہ دُنیا بڑی کھلی ڈھلی سی آزاد آزاد سی لگنے لگتی ہے۔ جیسے جیسے آگے چلتے جاتے ہیں پہاڑ، چٹان اور میدان اپنے دامن مزید وسیع اور بانہیں مزید وا کرکے مخلوقِ خدا کو بہت کچھ دکھانے اور سکھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ واہ، کیا جان دار سوال کیا ہے کسی نے:
اتنا کیوں سکھائے جا رہی ہو زندگی؟
ہمیں کون سی صدیاں گزارنی ہیں یہاں
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔