وکی پیڈیا کے مطابق پاک و ہند کے نامور اُردو ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور ’’سید سجاد ظہیر‘‘ 5 نومبر 1905ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ریاستِ اَوَّدھ کے چیف جسٹس سر وزیر خاں کے گھر جنم لیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ادب پڑھنے کے بعد والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے برطانیہ جاکر آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، اور بیرسٹر بن کر لوٹے۔ یہاں انہوں نے قانون کے ساتھ ادب کا بھی مطالعہ کیا۔
سجاد ظہیر، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانی ارکان میں سے تھے۔ بعد ازاں 1948ء میں انہوں نے فیض احمد فیضؔ کے ساتھ مل کر ’’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ دونوں رہنما بعد میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ محمد حسین عطا اور ظفراللہ پشنی سمیت کئی افراد اس مقدمے میں گرفتار ہوئے۔ میجر جنرل اکبر خان اس سازش کے مبینہ سرغنہ تھے۔ 1954ء میں انہیں بھارت جلاوطن کر دیا گیا۔ وہاں انہوں نے انجمنِ ترقی پسند مصنفین، انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن اور ایفرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ وہ نہ صرف ان تینوں تنظیموں کے روح رواں تھے بلکہ ان کے بانیوں میں سے تھے ۔
سال 2005ء کو دنیا بھر کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے سجاد ظہیر کے صد سالہ سالِ پیدائش کے طور پر منایا گیا۔ 1932ء میں افسانوی مجموعہ ’’انگارے‘‘ جس میں علی احمد، رشید خان، محمد الظفر اور سید سجاد ظہیر کے افسانے شامل تھے۔ برطانوی راج نے اہلِ ہندوستان کے مذہبی ابہامات کو نشانہ بنانے کے الزام میں مذکورہ مجموعے کو ضبط کر لیا۔
ان کی اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر بھی اردو کی جانی پہچانی ناول نگار ہیں۔ ان کی چار صاحبزادیاں ہیں۔ ان کی صاحبزادی نادرہ ظہیر بائیں بازو کی سیاسی کارکن ہیں۔ ان کی شادی بالی ووڈ کے نامور فلمی ستارے اور سیاسی کارکن راج ببر سے ہوئی۔ آریہ ببر اور جوہی ببر ان کی اولادیں ہیں۔
آپ 11 ستمبر 1973ء کو الماتے ، (قازقستان)، جو تب سوویت یونین کا حصہ تھا، میں ایفرو ایشیائی مصنفین کی تنظیم کے ایک اجلاس کے دوران انتقال کرگئے۔