امرتا جن دنوں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بطورِ اناؤنسر کام کرتی تھی، اکثر بس ہی سے آیا جایا کرتی تھی۔ امروز اور امرتا دونوں ہی پٹیل نگر میں رہتے تھے۔ امروز کے پاس سکوٹر تھا، تو ایک روز انہوں نے امرتا کو گھر سے اُس کے دفتر چھوڑ کر اپنے دفتر جانے اورواپسی میں اسی طرح گھر چھوڑنے کی پیش کش کر ڈالی، جو امرتا نے قبول بھی کرلی۔ ایک دن جب امروز سکوٹر چلا رہے تھے اور امرتا پیچھے بیٹھی ہوئی تھی، امروز کی نظر سڑک پر تھی اور امرتا کی انگلیاں اس کی پیٹھ سہلا رہی تھیں۔ امروز نے جب یہ سہلانے پر غور کیا، تو انہیں محسوس ہوا کہ امرتا پیٹھ نہیں سہلا رہی ہے، بلکہ انگلی سے کچھ لکھ رہی ہے۔ انہوں نے امرتا سے جب پوچھا، تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر چوں کہ وہ بہت صاف گو تھی، اس نے بتا دیا کہ غیر ارادی طور پر اُس کی انگلیاں امروز کی پیٹھ پر ساحرؔ، ساحرؔ لکھ رہی تھیں۔
(ساحرؔ لدھیانوی کی خود نوشت سوانح ’’مَیں ساحرؔ ہوں‘‘ از ’’چندر ورما، ڈاکٹر سلمان عابد‘‘ مطبوعہ ’’بُک کارنر پرنٹرز اینڈ پبلشرز، جہلم‘‘ ستمبر 2015ء کے صفحہ نمبر 218 اور 219 سے انتخاب)