چند دن قبل روؤف کلاسرا نے ایک انگریز افسر کی کتاب "Strangers in India” کا تذکرہ لکھا تھا۔ اس کتاب میں انگریزوں کے طرزِ حکومت اور قوانین کو ہندوستان میں لاگو کرنے کے نتیجے میں جو مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں، ان کا تجزیہ اور محاکمہ افسانوی انداز میں کیا گیا ہے۔ موصوف چوں کہ خود براہِ راست حکومتی مشینری کا سالہا سال حصہ رہے ہیں، لہذا اپنے تجربات اور احساسات کے تناظر میں رقم طراز ہیں کہ ہم نے جو قوانین متعارف کرائے، وہ ہندوستان کے معاشرے کے لیے نہیں بنے۔ لہٰذا وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ یہ قوانین انگریز معاشرے کو سامنے رکھ کر بنائے گئے تھے۔ جہاں اقدار اور معیارات ہندوستان کے معاشرے سے بہت کچھ مختلف ہیں۔ لہٰذا یہاں ان قوانین کو لاگو کرنا بے فائدہ بلکہ الٹا نقصان دہ ہے۔ یورپ اور انگریزوں کے معاشرے میں ایمان داری کو پسند اور جھوٹ سے نفرت کی جاتی ہے۔ وہاں یہ قوانین اس لیے بھی کامیاب ہیں کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ضمیر یا معاشرے کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے۔ دوسری طرف ہم ہندوستان میں یہ قوانین مسلط کیے بیٹھے ہیں اور خود کو یہ یقین دلائے بیٹھے ہیں کہ وہی نتائج نکلیں گے اور ہندوستانی معاشرہ بھی یورپی معاشروں کی طرح انصاف اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کرے گا۔
وہ لکھتے ہیں کہ یہاں ہندوستان میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا کلچر ہے۔ یہاں ہندوستان میں کسی کو کوئی شرمندگی نہیں کہ وہ قرآن، گیتا یا بائبل پر حلف دے کر جھوٹ بول رہا ہے۔ جج کو بھی پتا ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ پولیس مقدمے میں جان ڈالنے کے لیے جھوٹے گواہ لے کر آتی ہے۔ مدعی سے لے کر پولیس اور جج تک سب کو پتا ہوتا ہے کہ گواہ جھوٹے ہیں، لیکن پھر بھی قانون کے تحت جج مجبور ہے کہ وہ بے گناہ ملزم کو پھانسی کی سزا دے۔ کیوں کہ مغربی قانون یہی کہتا ہے۔
آخر میں مصنف یہ نتیجہ برآمد کرتا ہے کہ ان قوانین کے ساتھ ہندوستانی معاشرہ کبھی نہیں بدلے گا۔ بے گناہ لوگ مرتے رہیں گے، جھوٹے لوگ وکیلوں کو ساتھ ملا کر انصاف لیتے رہیں گے، اور جو جھوٹ کو نہیں خرید سکتے، وہ اسی طرح سزائیں پائیں گے۔
قارئین، اس تناظر کو ہم کم و بیش پاکستان کے تمام اداروں پر لاگو کرسکتے ہیں، لیکن سرِدست میں اعلیٰ سطح کے تعلیمی اداروں اور ان کی کارکردگی کے ضمن میں اس مقدمے کو سامنے لانا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں کم و بیش 35 لاکھ طلبہ یونیورسٹی لیول کی تعلیم کے دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ دور ان کی زندگی کا سنہری اور سہانا دور ہوتا ہے، جسے یہ زندگی بھر یاد کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کچھ مسائل اور پیچیدگیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان طالب علموں کا یہ دور ایک ذہنی اذیت سے بھرپور قیدِ بامشقت کی طرح گزر جاتا ہے۔ خاص کر ’’سیمسٹر سسٹم‘‘ کے متعارف کرنے کی وجہ سے یہ مسائل چنداں افزوں ہوگئے ہیں۔
انگریزوں نے یونیورسٹیوں کے لیے جو قوانین بنائے ہیں، ان کی رو سے یہ خود مختار ادارے ہیں جن کی اندرونی تنظیم اور مینجمنٹ میں یہ کھلے طور پر بااختیار ہوتے ہیں۔ جو پروفیسرز اور اساتذہ انتظامی کمیٹیوں اور ذمہ داریوں میں لگ جاتے ہیں، یونیورسٹی کی اچھائی برائی پھر کافی حد تک انہی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ حکومتوں کی طرح ان کے بھی دو فیصلہ ساز فورم ہوتے ہیں، جن میں ایک سینڈیکیٹ اور دوسرا سینیٹ کہلاتا ہے۔ یہاں یونیورسٹی کے قوانین سے لے کر اصول و ضوابط، پروموشن، ڈیموشن، پراجیکٹ اور فنڈز کی منظوری وغیرہ کے حوالے سے فیصلے کیے جاتے ہیں، اور اس کے ممبرز بر بنائے عہدہ یا انتخاب کی بنیاد پر آتے ہیں۔ اس لیے اساتذہ کے مابین پارٹیوں اور علاقوں کی بنیاد پر گروہ بندی عام سی بات ہوتی ہے۔
لیکن ان سب اداروں میں طالب علم کا کوئی کردار نہیں رکھا گیا، حتی کہ اسے یونین سازی جیسے بنیادی آئینی حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ اب ان 35 لاکھ سے زائد طالب علموں میں سے کسی کا کوئی مسئلہ آجائے، تو اس کی شنوائی کے لیے کوئی در اور جگہ موجود نہیں۔ پیٹی بند ہونے کی بنیاد پر اساتذہ اگر مخالف گروپ کے بھی ہوں، تو ایک دوسرے کے سپورٹ اور بچاؤ میں پیش پیش ہوتے ہیں، اور طالب علم کا مستقبل یا تو ان اساتذہ کی انا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، اور یا پھر طالب علم ناک رگڑ کر ان کے ناجائز اور غلط بات کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے۔
بہت کم یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر اکثریت میں یہی کلچر موجود ہے کہ طالب علموں کو دیوار سے لگا کر انہیں انتہائی اقدام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ دوست جو کہ اتنے قابل ہیں کہ اپنے فیلڈ میں حکومت گلگت بلتستان کے لیے پالیسی بنانے کا کام کرچکے ہیں، ان کو ایک یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری میں داخلہ دینے کے دو ماہ بعد اس بنیاد پر معطل کر دیا کہ آپ کی منتخب کردہ فیلڈ آپ کی ایم فل کی ڈگری سے تھوڑی مختلف ہے۔ اس دوست نے ہمت و جرأت سے کام لیا، اور اس حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ ہائی کورٹ نے انہی کے حق میں فیصلہ دیا۔ جواباً یونیورسٹی انتظامیہ کو اتنی مرچیں لگیں کہ انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں سرکار کے خرچے پر چیلنج کیا، جب کہ ہمارے دوست نے وسائل کی کمی کی وجہ سے وکیل نہ کرسکنے کے باعث خود ہی مقدمہ کی وکالت کی، اور وہاں بھی سرخرو ہوئے۔ لیکن اب اس کے بعد ان کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ معمولی معمولی بات کے لیے ان کو تنگ کیا جارہاہے، اور ’’ٹرخاؤ پالیسی‘‘ سے کام لے کر ان کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اور ڈھیر سارے دوستوں کو میں جانتا ہوں جن کے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں اساتذہ کی کم ظرفی، تعصب اور انا پرستی کی وجہ سے اپنے کیریر کے کئی کئی سال ضائع ہونے کا نقصان برداشت کرنا پڑچکا ہے۔
قارئین، حکومتِ وقت میڈیا ٹریبونل میں بہت دلچسپی دکھا رہی ہے۔ اگر لگے ہاتھوں ایج سٹوڈنٹس ٹریبونل بھی تشکیل دے دیا جائے، جس میں اس قسم کے استحصالی اور ظلم پر مبنی اقدامات اور چیرہ دستیوں کو چیلنج کیا جاسکے، تو یہ پہلے سے مایوسی اور ناامیدی کی دلدل میں پھنسے ہوئے طلبہ کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہوسکتی ہے۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔