سوات ڈھیر سارے حوالوں سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ تاریخ میں سوات پر کئی نشیب و فراز آئے، لیکن ہر بار سوات اور اس کے باسی ایک نئی توانائی کے ساتھ اُبھرے، اپنے زخم مندمل کیے اور آگے بڑھے۔
دیگر بہت سی امتیازی خصوصیات کے علاوہ سوات اس حوالے سے بھی ایک خوش قسمت خطہ رہا ہے کہ اس پر دیگر قریبی علاقوں اور ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ لکھا جاچکا ہے۔ لکھنے کے اس عمل میں اگر ایک طرف یہاں کی قدرتی خوب صورتی نے اپنا کردار ادا کیا ہے، تو دوسری طرف اس کی تاریخی اہمیت، مذہبی تقدس اور جغرافیائی محلِ و قوع کا بھی اچھا خاصا عمل دخل رہا ہے۔ ان اُمور کے علاوہ سوات کے حکمرانوں نے بھی روشن خیالی اور عوام دوستی کا مظاہرہ کیا۔ ان حکمرانوں نے سیاحوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کی سعی کی جو کہ کسی سیاحتی مقام کی شہرت کے لیے لازمی جز ہوا کرتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک طرف ملحقہ ریاست کے حکمران نے اپنی ریاست کو دلہن سے تعبیر کیا، اور اس کی قدرتی رعنائیوں کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھا، تو دوسری طرف سوات کے حکمرانوں نے ایک بالکل متبادل لائحہ عمل اختیار کیا۔ انہوں نے اپنے تئیں کوششیں کیں کہ سوات کو دنیا کے سامنے امن اور خوب صورتی کا ایک نمونہ پیش کیا جائے۔ وہ بہت حد تک اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے۔ اسی ’’سافٹ امیج‘‘ کا فائدہ بعد میں حکومت پاکستان نے بھی اُٹھایا، اور غیر ملکی اعلیٰ حکام کو سوات آنے کی ترغیب دی، تاکہ اسی بہانے سے ملکی ساخت میں بھی بہتری آسکے۔
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ 1926ء تک سوات آنے والے سیاحوں اور خاص کر گوروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ کیوں کہ سوات براہِ راست اُن کے زیرِ انتظام نہیں تھا، اور اُن کے قوانین یہاں پر لاگو نہیں ہوتے تھے۔ گوروں کا یہ تجسس کئی دہائیوں سے چلا آرہا تھا، اور وہ گاہے بگاہے اپنے نمائندے اور ایجنٹ سوات بھیجتے رہتے تھے، تاکہ سوات کے حالات، اس کی نامی گرامی شخصیات اور یہاں کے لوگوں کے رہن سہن سے واقفیت حاصل کرسکیں، اور مستقبل میں انہی معلومات اور رپورٹس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکیں۔ 1926ء میں ریاستِ سوات کو باضابطہ تسلیم کرلینے کے بعد ملکی و غیر ملکیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدائی طور پر یہ سرگرمی محدود رہی۔ کیوں کہ سوات ایک عبوری دور سے گزر رہا تھا۔ نئے علاقے فتح ہورہے تھے، اور کچھ حد تک اندرونی خلفشار بھی موجود تھا۔
یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ ریاستِ سوات کے دور میں یہ ملکی اور غیر ملکی براہِ راست سوات نہیں آسکتے تھے۔ سوات آنے کے لیے ایک حد تک مشکل طریقۂ کار اپنایا گیا تھا۔ شاہی ریاستوں کے لیے ایک پولی ٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ کے مقام پر تعینات ہوتا تھا، اور اُسی سے این او سی یا ’’انٹری پرمٹ‘‘ لینا پڑتا تھا۔ ان انٹری پرمٹوں سے اُس وقت کی حکومتی فائلز بھری پڑی ہیں۔ ڈھیر سارے مواقع پر یہ این او سی سوات آنے والے خواہش مند افراد کے لیے وبالِ جان بن جاتی تھی اور وہ صرف اسی وجہ سے سوات آنے سے محروم ہوجاتے تھے۔ والیِ سوات نے حکومتِ پاکستان کے اس طرزِ عمل اور پالیسی پر احتجاج بھی کیا، اور حکومتی اہلکاروں کو متعدد خطوط بھی بھیجے۔ اُن خطوط میں اُن انٹری پرمٹ کے خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ اُن کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ سیاح سوات آسکیں، اور واپس جاکر یہاں دیگر لوگوں کو آنے کی ترغیب دے سکیں۔ اس سیاح دوست پالیسی ہی کی وجہ سے ایک انگریز لکھاری کا یہ سادہ سا جملہ اپنے اندر بہت ہی معنویت لیے ہوئے ہے۔ وہ سوات کے متعلق لکھتے ہیں کہ: "Swat is Soft while Dir is Hard”
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملکی و غیر ملکیوں کی یہ آمد صرف سیاحوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے طالب علم اور محققین بھی سوات آتے رہتے تھے۔ ان غیر ملکیوں نے سوات پر قابلِ ستائش تحقیق کی، اور ہمارے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کیا۔ یہ ریسرچرز کئی کئی مہینوں تک سوات کے دور دراز علاقوں میں مقیم رہے، اور مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل جایا کرتے۔ ان محققین نے سواتی معاشرے کے اُن پہلوؤں پر بھی قلم اُٹھایا، جن پر مقامی لوگ کام کرنے سے کتراتے تھے۔ اُن مہمانوں کی یہی کتابیں اب نئے لکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو رہی ہیں۔ سو یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم نے ان لکھاریوں کی مہمان نوازی کی، تو بدلے میں انہوں نے بھی ہمیں بہت کچھ دیا، اور ہمیں دنیا کے سامنے مہذب، برد بار اور ترقی یافتہ قوم کی شکل میں پیش کیا۔ بلاشبہ باہر سے آئے ہوئے ان لکھاریوں کی تحریریں، اُن کا اُسلوب، اُن کا غیر متعصبانہ رویہ اور اپنے کام سے لگن اُنہیں ممتاز کرتا ہے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔