گُلوکارہ ماہ جبیں قزلباش کا اصل نام ثریا خانم ہے۔ انہوں نے پشتو لوگ گیت اور غزلیں گا کر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی وِژن کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور فلموں کے لیے بھی گانے گائے ہیں۔ وہ ذاتی حوالے سے مختلف رسائل و جرائد میں انٹرویو دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کے والد کا نام امداداللہ تھا، جن کا تعلق افغانستان سے تھا، جب کہ والدہ کا تعلق ایران سے تھا۔ ان کا خاندان عرصۂ دراز سے پشاور میں آباد ہے۔ ان کے دو بھائی ہیں، جن میں ایک محکمہ واپڈا جب کہ دوسرا پشاور میں اپنا کاروبار کرتا ہے۔
ماہ جبیں نے فاروڈ سکول پشاور سے تعلیم پائی۔ یہاں سے انہوں نے فنِ موسیقی کی ابتدا کی۔ انہوں نے اپنے سکول کے ایک استاد کے توسط سے ریڈیو پاکستان تک رسائی حاصل کی۔ وہاں انہوں نے بچوں کے لیے قومی ترانے گائے، جن کو عوامی پذیرائی ملی۔ بعد میں وہ حکیم اللہ اورکزئی (ایمل خان) کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھیں۔ لائق زادہ لائقؔ (پروڈیوسر پشاور ریڈیو پاکستان) اپنی کتاب ’’فنکار نہ مری‘‘ میں ان کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ’’ماہ جبین قزلباش نے 1958ء میں امداد علی قزلباش کے ہاں جنم لیا۔ ان کی ماں کا تعلق پشاور میں ’’بہادر کلی‘‘ سے تھا۔ ان کا یہ نام (ماہ جبین) پشتو زبان کے نامور شاعر امیر حمزہ خان کے بیٹے مراد شنواری نے تجویز کیا تھا۔‘‘
سپینی سپوگمئی وایہ اشنا بہ چرتہ وینہ
گونگئی شوے ولی، نہ وائے حالونہ
ماہ جبیں نے ریڈیو کے لیے سب سے پہلے اسی گیت پر اپنی آواز کا جادو جگایا تھا، جس کے بول مراد شنواری نے لکھے تھے اور کمپوزنگ رفیق شنواری کی تھی۔ یہی گیت بعد میں ٹیلی وِژن پر اُن کی شہرت کا ذریعہ بنا۔
’’میں ریڈیو پاکستان اپنے سکول کی طرف سے گئی تھی۔ اُس وقت مَیں نے بچوں کے لیے قومی گیت ریکارڈ کروائے۔ اس سے میرا موسیقی کے ساتھ لگاؤ پیدا ہوا۔ میرے ایک چچا نور علی (مرحوم) پی ٹی وی میں کیمرہ مین تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ٹی وی سٹیشن لے گئے۔ جہاں پر رفیق شنواری نے میرا عملی امتحان لیا، اور یہ گیت (سپینی سپوگمئی) ریکارڈ کروایا۔ مذکورہ گیت گاتے وقت میں کم عمر تھی، موسیقی کے فن سے مکمل طور پر آشنا نہیں تھی۔ اس کے بعد مَیں نے فنِ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔‘‘
ماہ جبیں مزید کہتی ہیں کہ مَیں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم رفیق شنواری سے حاصل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میری غزلوں اور گیتوں کی کمپوزنگ کی ہے۔ گائیکی کے ساتھ ساتھ مَیں نے اُردو اور پشتو ڈارموں میں اداکاری بھی کی ہے۔ ’’موسیقی میں گرو ہونے کے ناتے مَیں نے پشتو میں سب سے زیادہ گیت استاد رفیق شنواری کی ترتیب شدہ دھنوں پر گائے ہیں۔ مجھے ملکۂ ترنم نور جہاں کے گیت اور آواز بہت پسند تھی۔ مَیں ہر وقت انہی کے گیت گنگناتی تھی۔ پشتو کے علاوہ میں نے اُردو اور ہندکو کے گیت بھی گائے ہیں۔ یہاں پر مجھے ڈراموں میں اداکاری کا موقعہ بھی ملا۔ مَیں نے اس زمانے کے نامور پروڈیوسرز کے ساتھ ڈراموں میں فن کاری کی، جن میں فرمان اللہ جانؔ، شوکت علی، ضیاء الرحمان، کریم خان اور صلاح الدین کے نام سرِفہرست ہیں۔ سال 1982ء میں، مَیں نے اداکاری کو خیر باد کہہ کر صرف موسیقی پر توجہ دینا شروع کی۔‘‘
ماہ جبیں نے خیبر پختونخوا کے نامور گُلوکاروں کے ساتھ مل کر بھی گیت گائے ہیں، جن میں خیال محمد کے ساتھ گائے ہوئے گیتوں پر انہیں خاصی پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ عوام نے اُن گیتوں کو بے پناہ سراہا ہے۔
ماہ جبیں نے فلموں کے لیے بھی گیت گائے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ اس حوالہ سے انہیں کوئی خاص داد نہیں ملی، جس کی ایک بڑی وجہ فلموں کا غیر معیاری ہونا بتایا جاتا ہے۔ خیال محمد کے ساتھ مل کر گائے ہوئے گیتوں کے حوالے سے وہ کہتی ہیں: ’’مَیں نے جتنے بھی گیت استاد خیال محمد کے ساتھ مل کر گائے ہیں، تقریباً سبھی نے عوام میں مقبولیت حاصل کی ہے، جیسے ذیل میں دیا جانے والا گیت ملاحظہ ہو: (خیال محمد کی آواز میں)
ستا پہ جدائی کی، تیر بہ شی وختونہ
مینی دی ملنگ کڑم غواڑم خیرونہ
ماہ جبین اس کا جواب کچھ یوں دیتی ہیں:
وا ملنگہ یارہ مہ کوہ غمونہ
سترگی دی کچکول کڑہ واخلہ دیدنونہ
’’اس طرح ڈھیر سارے اور بھی گیت مَیں نے ان کے ساتھ مل کر گائے ہیں، جو ریڈیو، ٹیلی وِژن اور فلم میں شامل ہیں۔ ہمارے گانوں کی زیادہ تر موسیقی اور کمپوزنگ رفیق شنواری کی ہوتی تھی۔ یوں مَیں نے رفیق شنواری کے علاوہ ایس ٹی سنی اور جہانزیب نوشہروی جیسے نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ہے، اور ان کی فلموں کے گیت گائے ہیں۔ پشتو فلموں کے لیے میں اُس وقت تک گاتی رہی جب تک وہ اپنی تہذیب و ثقافت کے دائرے میں تھی۔ فلم نے جب پشتون تہذیب و ثقافت کا دامن چھوڑا، تو مَیں نے بھی فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی۔‘‘
ماہ جبیں اپنے فن کے حوالے سے مزید بتاتی ہیں کہ انہیں موسیقی میں علاقائی گیت کی نسبت غزل کی گائیکی بہت پسند ہے۔ انہوں نے اپنے دور کے مشہور شعرائے کرام کی ڈھیر ساری غزلیں گائی ہیں۔ اپنی غزل گائیکی کے حوالے سے بتاتی ہیں: ’’مَیں نے ڈاکٹر اعظم اعظمؔ، شمس الزمان شمسؔ، ساحرؔ آفریدی، حمزہؔ بابا اور خوشحالؔ بابا کا کلام گایا ہے۔ غزل کی گائیکی بہت مشکل کام ہے، مگر غزل میری من بھاتی صنف ہے۔ میری غزل کو سننے اور پسند کرنے والوں کی تعداد کافی ہے۔‘‘
ماہ جبیں اپنے کام سے مطمئن ہیں۔ ساتھ ہی مزید کام کرنے کی خواہش مند بھی ہیں۔ وہ اس بات پر بھی خوشی کا اظہار کرتی ہیں کہ حکومت کی طرف سے بھی ان کے کام کو سراہا گیا ہے۔ مختلف ایوارڈز کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
ماہ جبیں کے بقول: ’’اس جدید دور میں گائیکی بہت آسان ہوگئی ہے۔ فن کار کسی قسم کی محنت نہیں کرتے، اور نہ اس فن کے حوالے سے سیکھتے ہی ہیں۔ تقریباً سبھی کمپیوٹر کے ذریعے کام کرتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ کہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے خواہش مند بھی ہیں، لیکن ناموری کے لیے سخت محنت اور ریاض درکار ہوتا ہے۔ میں پروردگار کی شکر گزار ہوں کہ اُس نے شہرت سے نوازا اور اس کے ساتھ عزت بھی عطا کی۔ حکومتِ پاکستان نے تمغائے امتیاز سے نواز کر مجھے اور میرے فن کو امر کر دیا۔‘‘ (مشال ریڈیو کی شائع کردہ ہارون باچا کی پشتو تصنیف ’’نہ ھیریگی نہ بہ ھیر شی‘‘ سے ’’ماہ جبین قزلباش‘‘ کا ترجمہ)
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔