اسی سوچ بچارمیں اونگھ آتی ہے، پھرغنودگی کی کیفیت چھا جاتی ہے۔ یاد آتا ہے کہ تبلیغ میں چھے سات ہفتے گزار کرہم نے سیکھا تھا کہ سونے کے لیے انسان کو کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے؟ اُونگھنے کا مرحلہ سب سے پہلے آتا ہے جس کے بعد غنودگی حاوی ہو جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں ہلکی نیند پھر گہری نیند، جس کے بعد بے ہوشی اور اس کے اگلے مرحلے میں فوجی ناکے کی طرح ’’موت کا ناکہ‘‘ ہو تا ہے۔ کل ہم ’’آپریشن راہِ حلق‘‘ کے لیے بے ہوشی کے مرحلہ میں قدم رکھیں گے، جہاں زندگی اورموت آمنے سامنے ایک دوسرے کے خلاف صفِ آرا ہوں گے، جس کے بعد موت کا ناکہ ہوگا۔ انہی سوچوں میں آنکھیں بند کب ہوئیں اورفجر کی اذان کب ہوئی، یہ پتا ہی نہیں چلا، لیکن لیپ ٹاپ کے ذخیرے سے ماضی کے باسلیقہ گانے سنتے ہی یقین ہو جاتا ہے کہ فجر کا وقوعہ رونماہو گیا ہے۔ یعنی شاہ صاحب کے گانے سننے اور پھر کھانے پینے کے بھرپورعمل کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ یہ چوہدری برادران عمومی طور پر مہمانوں کو ناشتہ ریسٹورنٹس میں کروانا پسند کرتے ہیں۔ ’’اللہ ہؤ چوک‘‘ سے شوکت خانم ہسپتال کی طرف جاتے ہوئے کوئی دو کلومیٹرفاصلے پر ناشتے کے کئی مشہو چینز اورعام ریسٹورنٹس واقع ہیں۔ پتا ہے کیاکیا نام ہیں اُن کے؟ محمدی نہاری والے، مکہ سری پائے والے، مدینہ چکن چھولے والے، الحاج نان پراٹھا والے، من و سلویٰ حلوہ پوڑی والے، الجنت بیکری والے اور اسی طرح کے دیگراسلامی، شرعی و دینی لبادوں میں ملبوس یہاں ریسٹورنٹ کیا بڑے بڑے کاروبار اور ادارے چلتے ہیں۔ تو ہاں، ناشتے میں گرم گرم چپاتیاں، چھولے، چکن چنے، شاہی پٹھورے، سری پائے، آملیٹ، میٹھی لسی، نمکین لسی اور نہ جانے اور کیا کیا کھانے اور مشروبات یہاں کے شوکیسوں میں سجے ملتے ہیں۔ نان خطائی بارے یہاں کی خواتین خانہ کا سٹینڈ کیا ہے؟ یہ علم نہیں، البتہ اپنے میزبان کا سٹینڈ تو یہ ہے کہ اِسے کھائے بِنا کسی مہمان کا لاہور سے یوں چلے جانا، نان خطائی کی بے حرمتی اور میزبان کی توہین ہے۔ اپنے دِل پشوری لاہوری بھائی راتیں جاگ جاگ کر گزارتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ فجر قضا نہ ہو جائے، بلکہ اس لیے کہ ناشتے کافریضہ بروقت ادا ہو جائے، نماز تو قضا بھی ادا کی جا سکتی ہے، جب کہ
’’ناشتے کا ایک وقت معین ہے‘‘
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
چند لحظوں میں ہم ریسٹورنٹ پہنچتے ہیں۔ شاہ جی اورچوہدری ناشتہ تناول فرماتے ہیں، اور ہم تماشا کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہم کو تو نہار منھ ہسپتال پہنچنا ہے۔ صبح گیارہ بجے اپنے ’’پیر مبارک‘‘ کے سہارے ہسپتال کے ’’آپریشن تھیٹربے‘‘ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں ایک ریڈ لائن کے بعد انٹری کرنے والوں کو مخصوص گاؤن زیب تن کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں بھی یہی ’’نقلِ کفر‘‘ کرنے کا حکم دیا جاتاہے، جس کی بجاآوری کرتے ہیں۔ یہ تو وہی جگہ ہے جہاں موت کے منھ میں پہنچے ہوئے بیمار کومرنے سے بچانے کے لیے عارضی طورپرموت ہی کی وادی میں لے جایا جاتا ہے، یعنی بے ہوش کردیا جاتا ہے اور ضروری تراش خراش اورڈینٹنگ پینٹنگ کے بعد زندگی کی وادی میں واپس لایا جاتا ہے۔ بہ شرط یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہاں پرحاضر فرشتۂ اجل کو کوئی کارروائی کیے بِناواپسی کا پروانہ ملے۔
آپریشن تھیٹرمیں ایک الگ دُنیا کام کے سمندرمیں غرق ہے۔ ریسیپشن پر کئی سسٹرز، اٹنڈنٹس، رضاکار اور ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود بڑے ذمہ دارانہ طریقے سے اپنے اپنے کام نمٹاتے ہیں ، یہاں فائلز بنتی ہیں، مریض کے ریکارڈ کا مکمل اندراج کیا جاتا ہے، مریض کی نفسیاتی حالت کاجائزہ لیا جاتا ہے، مختلف پیپرز پردستخط لیے جاتے ہیں، کلائی پررِبن لگایا جاتا ہے ، جس پرمریض کا ریکارڈ نمبر درج ہوتا ہے۔ کئی ڈاکٹرز کئی دفعہ ہمارے پاس آتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، کچھ سوال کرتے ہیں، بچپن میں بیماریاں کون سی آئیں؟ آپریشن کتنے کیے؟ کیوں کیے ؟ نشے کیا کیا کیے؟ کب تک کیے؟ بچپن کی کوئی کہانی بیان کیجیے اور اس قبیل کے دیگر سوال۔ یہ عمل ہمیں خاصا ماضی زدہ کر دیتا ہے۔ دریائے خیالی پر پرندوں کے بادشاہ کی زندگی کی دُھندلی سی تصویرچھا جاتی ہے۔ عقاب کے ساتھ ہماری ذہنی وابستگی اورمحبت بچپنے سے تھی۔ ویسے ہی، فی سبیل اللہ۔ سکول کے دنوں میں یہ سٹریٹ شعربِنا مطلب سمجھے بار بار اورجگہ جگہ کہتے پھرتے
تندیِ باد ِمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
عقاب کی زندگی سے انسان چاہے توسبق بھی حاصل کر سکتا ہے اور چاہے تو اِس کی طرح حالات سے مقابلہ کرکے ایک لمبے عرصے تک جی بھی سکتا ہے۔ عربی ادب میں ایک عقاب کا بڑھاپے سے لڑنے کاعمل بڑا دلچسپ بھی ہے اور ہم جیسے بیماروں کے لیے حوصلہ افزا بھی۔ عقاب کی اوسط عمر بھی انسان کی طرح لگ بھگ 60 یا 70 سال تک بتائی جاتی ہے۔ وہ بھی تب جب اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلے۔ چالیس سال کی عمر میں اس کے تیز تلواری پنجے کند ہو جاتے ہیں۔ وہ شکار سے مجبوراً دست بردارہو جاتا ہے۔ اس کی زورآور چونچ پست ہو جاتی ہے۔ بھاری پن کی وجہ سے یہ اپنے پروں سے اور پَر اپنے جسم سے بے نیازسے ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اُسے اُڑنے میں شدید دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی تیز بینی جو کہ ایک ضرب المثل کی طرح یاد کی جاتی ہے، جو خالقِ کائنات کی حکمت کی ایک شہادت گردانی جاتی ہے معدوم ہونے لگتی ہے۔ سوچیں، عقاب جیسا پرندہ، پرندوں کا بادشاہ، جو کتنی دھوم دھام میں آوارگی اورعیش و نشاط میں زندگی گزارتا ہے،جب وہ ان خصوصیات سے محروم ہو جاتا ہے، کام کا رہ جاتا ہے نہ کاج کا، بس دشمن اناج کا رہ جاتا ہے۔ بنا بنایا اناج کا پیڑا اُسے دینے والا کوئی نہ ہواورمدرسے کے کسی طالب بچے کی طرح دوسروں کی بچی کھچی خوراک اُس کی خوراک بن جائے، تو ایسی صورتحال میں اُس کی مایوسی اور بے بسی کا کیا عالم ہوگا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لاچارگی کی یہ صورتحال اس بے چارے بوڑھے کو دو آپشن تک محدود کرتی ہے۔ (جاری ہے)

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔