کہاں راجا بھوج، کہاں گنگوا تیلی (کہاوت کا پس منظر)

ادنیٰ کو اعلیٰ سے کیا نسبت؟ دو چیزوں یا دو اشخاص میں زیادہ فرق ہونے کے محل پر اس کہاوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب ایک تاریخی واقعہ ہے جو اس طرح بیان کیا جاتا ہے:
’’مالوا اور گجرات کے راجا بھوج کی حکومت میں گنگوا نامی ایک غریب اور بوڑھا تیلی رہتا تھا۔ اس کا لڑکا علمِ موسیقی میں اس قدر ماہر تھا کہ راگ اور راگنیاں اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی تھیں۔ راجا بھوج بھی سنگیت پریمی تھا۔ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ گنگوا تیلی کے لڑکے نے دیپک راگ گا کر راجا بھوج کے محل کے تمام چراغ روشن کر دیے۔ اس سے خوش ہو کر راجا بھوج نے اپنی لڑکی کا بیاہ گنگوا تیلی کے لڑکے کے ساتھ کر دیا۔ اس وقت سے یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ ’’کہاں راجا بھوج، کہاں گنگوا تیلی۔‘‘
مراٹھی بھاشا کے مہاراشٹر واک سمپر دائے کوش کے مرتبین کی تحقیق کے مطابق گنگوا تیلی دراصل گنگ راج تیلپ (973ء تا 997ء) ہے۔ جس نے پرمار خاندان کے راجا مُنج کا قتل کرکے اس گدی پر قبضہ کرلیا تھا۔ اسی منج راجا کو غلطی سے راجا بھوج سمجھ لیا گیا۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ 229 تا 230 انتخاب)