یہ کہاوت اصل میں ’’یہ منھ اور منصور کی دار‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے تم اس لائق نہیں۔ تم اس کے مستحق نہیں۔ اس تلمیحی کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب وہ مشہور نعرہ ہے جو ایک عارف باللہ حضرت منصور نے عالمِ بے خودی و مستی میں لگایا تھا۔
حضرت منصور کا پورا نام ابوالمغیث الحسین بن منصور البیضاوی تھا، لیکن وہ اپنے باپ کے نام منصور سے مشہور ہوئے۔ حضرت منصور 242ھ کے قریب پیدا ہوئے۔ تقریباً 50 سال ریاضت میں بسر کرنے کے بعد ایک دن جوش میں انہوں نے اناالحق (مَیں خدا ہوں) کا نعرہ لگایا۔ بغداد کے علما نے ان پر کفر کافتویٰ لگا دیا اور 300 کوڑوں کی سزا مقرر کی۔ جب اس سزا سے بھی ان کی وارفتگی میں فرق نہ آیا، اور وہ اس کلمہ سے باز نہ آئے، تو خلیفہ المقتدر باللہ کے حکم پر مفتیِ شریعت نے سزائے موت تجویز کی۔ شریعت کا فتویٰ ہمیشہ ظاہری اقوال و اعمال پر لگتا ہے۔ عشق کے راز و نیاز سے ہر شخص واقف نہیں ہوسکتا۔ منصور نے یہ نعرہ کیوں اور کس حال میں لگایا تھا؟ ان کا یہ فعل محبوبِ حقیقی کی نظر میں ممدوح تھا یا مذموم؟ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا اہلِ عشق کی بے باکی اور جرأت پر سزا دیتی چلی آئی ہے اور یہ اس کا پرانا دستور ہے۔ کہتے ہیں کہ منصور کے پہلے پاؤں کاٹے گئے، پھر آنکھیں نکالی گئیں، پھر زباں کاٹی گئی، اس کے بعد دار پر چڑھا کر سنگ باری بھی کی گئی اور آخر میں ان کے سر کو کاٹ کر جلا دیا گیا۔ ان کی خاک دجلہ میں بہائی گئی۔ مشہور ہے کہ ہر سزا کے بعد ان کے رگ و پے سے ’’اناالحق‘‘ کی صدا بلند ہوتی تھی۔ ان کی خاک کا ہر خون آلود ذرّہ اور خون کے ہر قطرہ سے ’’حق حق‘‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ہر شخص کو منصور جیسا عشق اور مرتبہ کہاں نصیب؟ یہ منھ اور منصور کی دار، خدا جس کے نصیب میں لکھ دے، وہی اس مرتبے تک پہنچے۔
(ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی تصنیف ’’کہاوتیں اور ان کا حکایتی و تلمیحی پس منظر‘‘ مطبوعہ ’’دارلنور، لاہور‘‘ اشاعت 2012ء، صفحہ311 سے انتخاب)