ہمارے لیے بہتر ہو یا نہ ہو، اس پاگل کا منتخب ہونا اُس کے اپنے ملک کے لیے تو بہتر ہی ہوگا، تب ہی اس کو لوگوں نے منتخب کیا ہے۔ میری یہ ابتدائی رائے ’’ڈونلڈ جے ٹرمپ‘‘ کے امریکی صدر منتخب ہونے پہ تھی۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رائے تقویت پا رہی ہے کہ وہ اپنے پاگل پن کا نشانہ دوسرے ممالک کو تو بنا رہا ہے، مگر امریکی مفادات کے حوالے سے اس سے زیادہ عاقل شخص میری نظر میں تو کوئی اور ہے نہیں۔ قارئین کو معلوم ہو ایسا شخص اور کوئی، تو مجھے مطلع کیجیے گا۔ میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر ہو یا شورش زدہ علاقوں سے فوج کی تعداد میں کمی، اخراجات کے حوالے سے نیٹو ممالک کی کان کھنچائی ہو یا پھر ہم خیال ممالک سے تعلقات، وہ ہر معاملے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ اور میرے جیسے دیوانے جو توقع لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اس کی روش اقتدار میں آنے کے بعد تبدیل ہو جائے، توقع ہی ثابت ہوئی، حقیقت کا روپ نہ دھار سکی۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟ وہ ہمارا نہیں امریکہ کا صدر ہے۔ وہ وہی کرے گا جس سے اس کے ملک کا مفاد وابستہ ہوگا۔ وہ اپنے لے پالک بیٹے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات نہیں کم کرے گا۔ بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بھی مزید بلندی چھوئیں گی۔ وہ چین کی مخالفت میں اندرونِ خانہ اقدامات بھی کرتا رہے گا۔ ساتھ ہی بیرونی دنیا پہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے پاگل پن دکھاتا رہے گا، مگر ہم نے اس سارے معاملے میں کیا ایسا انہونا کیا جس سے یہ تاثر ملتا کہ ہم نے حال ہی میں اپنا سترہواں یوم آزادی منایا ہے اور ہم ڈکٹیشن لینے سے آگے بڑھ چکے ہیں؟ مودی اتنا مضبوط ہو گیا کہ اپنے دامن پہ گجرات فسادات کے داغ لیے ہوئے بھی وہ دنیا کی سپر پاؤر کے کندھے پہ اپنی بندوق رکھ کے چلا رہا ہے اور سپر پاؤر بھی اُس کی باندی بنے کندھا بخوشی پیش کر رہی ہے، تو ہم نے اس کے متبادل ’’سی پیک‘‘ کی بھبکی کے علاوہ دنیا کو کیا پیغام دیا جس سے ثابت ہوتا کہ ہم بے شک امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن ہم میں ایران اور وینزویلا جتنی طاقت تو ضرور ہے کہ ہم ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہیں اور ہماری فوج سے دنیا ڈرتی ہے؟ ہم ایسا کچھ نہیں کر پائے۔ بھارت سپر پاؤر کے کندھوں تک پہنچ چکا ہے جب کہ ہم ابھی تک اُس کے پاؤں سے ہی نہیں اُٹھ پائے۔
ہمارے حق میں چین بول پڑا اور واضح انداز میں بیان دیا مگر ہم شاید ابھی تک وہ کی بورڈ ایجاد نہیں کر پائے جس سے ہم ایک واضح جواب ٹائپ کر پائیں۔ روس اور چین اپنے مفادات کے لیے ہمارے حق میں بول پڑے، لیکن اپنے مفاد کے لیے ہم نہ بول پائے۔ حیرت کی بات ہے جو سویلین حکمران فوج کے کردار پہ تنقید کرتے ہیں، وہ اس لمحے کیوں خاموش ہو جاتے ہیں جب فوج آگے بڑھتی ہے اور اس طرح کے پاگل پن پہ دنیا کو جواب دیتی ہے؟ اس وقت نہ جانے کیوں سویلین حکومت نہیں کہتی کہ جناب آپ کا کام سرحدوں کا دفاع ہے، دنیا کو منھ توڑ جواب ہم دیں گے، دفتر خارجہ دے گا، وزیر خارجہ دے گا۔ لولے لنگڑے سے بیانات اصل معاملے کے دو سے تین دن بعد آنا شروع ہو تے ہیں۔ وہ بھی شاید دیکھنے کے بعد کس کے بیان سے کون سا لفظ ادھار لیں اور کسی کی مذمت سے کون سا فقرہ؟ اور یوں ایک ادھورا سا جواب ہم میڈیا کی زینت بنا دیتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اُسی تیزی سے دنیا کو بھی جواب دینے کی صلاحیت پیدا کر لیں جس طرح ہم اپنے کسی سیاسی مخالف کے بیانات کے جواب میں تیزی دکھاتے ہیں۔ ابھی کسی فریق کی پریس کانفرنس، جلسہ،ریلی جاری ہوتی ہے کہ اس کے دوران میں ہی اس پریس کانفرنس یا جلسے میں کہی گئی باتوں کے جواب آنا شروع ہو جاتے ہیں، لیکن عالمی سطح پر جب ہمارا عیار دشمن عالمی طاقتوں کے کندھوں پہ کنٹرول حاصل کر کے اپنے الفاظ اس طاقت کی زبان میں ڈال دیتا ہے، تو ہم کون سے ستو پی کے سو جاتے ہیں کہ ان کا خمار اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
یاد رکھیے۔ چین نے کھل کر فوراً امریکہ کو جواب دیا، کیوں کہ چین کے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ چین ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ میں کسی بھی جگہ رکاوٹ نہیں آنے دے سکتا۔ اور وہ جانتا ہے کہ سی پیک جیسا اہم منصوبہ اسی ون بیلٹ ون روڈ عالمی منصوبے کا حصہ ہے۔روس اگر امریکہ کی مخالفت کرتا ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری یاری میں کررہا ہے بلکہ وہ خود پہ کیے گئے وار کو بھولا نہیں ہے اور اب اس قدر سنبھل چکا ہے کہ امریکہ کی آنکھ کا خار بن چکا ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں پہ انحصار کرنا ہوگا، مگر اس سے پہلے ہمیں دوستوں کو دکھانا ہوگا کہ ہم خود کیا ہیں اور ہم اپنی سالمیت کے دفاع کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں؟ آپ خود اپنے آپ کو درست سمت میں گامزن کریں گے، تو ہی ہمارے دوست بھی ہمارے شانہ بشانہ چلیں گے۔ نظر آنا چاہئے کہ یہ وزیر خارجہ ایک ایٹمی قوت کا وزیر خارجہ ہے نہ کہ ایک عہدے سے سبکدوش ہو جانے والے سیاسی راہنما کا کارندہ۔ کندھے جھکانے سے کبھی تو انکار کر کے سینہ چوڑا کر کے کہیں کہ ہم دنیا کے ساتھ مل کر چلیں گے، مگر ایک ایٹمی ملک کی طرح نہ کہ کسی دور افتادہ شورش زدہ ایک افریقی ملک کی طرح ۔