وادیٔ سوات کے دلفریب اور دلکش مناظر سیاحوں کے سکون اور راحت کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ قدرتی آبشاریں، گھنے جنگلات اور پہاڑی درے جیسے قدرتی مناظر یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں۔ میوہ دارباغات، لہلہاتی فصلیں، فلک بوس پہاڑ، گھنے جنگلات اور پھر دریائے سوات، جس پر کسی جنت کے تیز نالہ کا گمان ہوتا ہے، یہاں کے پھلوں اور سبزیوں سے بھرے باغات پاکستان کے دوسرے علاقوں کی ضروریات پوری کرتے رہتے ہیں جبکہ بڑے بڑے سبزہ زار، ڈھلوانی اور میدانی علاقے اس کے علاوہ ہیں ۔
وادئی سوات کے لوگ مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔ جفاکشی، ہنرمندی اور بے پناہ مشقت کو اس علاقے کے تند و تیز حالات نے علاقہ مکینوں کے دل و دماغ میں پیوست کر دیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق سے پہلے وادئی سوات ایک ریاست کی شکل میں معاشی اور اقتصادی طور پر خود کفیل تھی۔ الحاق کے بعد سوات کے جنگلات، یہاں کا انفرا سٹرکچر، معیشت اور سیاحت سب کچھ تباہ وبرباد ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ اب تک سوات میں کوئی نیا میگا پراجیکٹ یامنصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔ وادئی سوات کی رعنائیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔البتہ سوات کی ایک دوسڑکوں پر تار کول بچھایا گیا ہے۔ ’’سونامی بلین ٹری پراجیکٹ‘‘ کی بدولت کئی ہزار پودے لگائے جا چکے ہیں ۔ شدت پسندی اورسیلاب سے تباہ حال پلوں اورسکولوں کی غیر ملکی امداد سے تعمیر نو کی جا چکی ہے۔ معیشت اور سیاحت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ چیک پوسٹوں کی وجہ سے سیاح گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔ سیاح گمان کرتے ہیں کہ اگر سوات پہنچنے سے پہلے ہی اتنی سخت سیکورٹی ہے، تو سوات پہنچنے پر نجانے کیسے حالات ہوں گے؟ اس لئے بعض افراد خوف کا شکار ہوکر واپس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ الحاق سے پہلے وادئی سوات ایک ریاست کی شکل میں معاشی اور اقتصادی طور پر خود کفیل تھی۔ الحاق کے بعد سوات کے جنگلات، یہاں کا انفرا سٹرکچر، معیشت اور سیاحت سب کچھ تباہ وبرباد ہو کر رہ گیا ہے۔

پاکستان کے ساتھ الحاق سے پہلے وادئی سوات ایک ریاست کی شکل میں معاشی اور اقتصادی طور پر خود کفیل تھی۔ الحاق کے بعد سوات کے جنگلات، یہاں کا انفرا سٹرکچر، معیشت اور سیاحت سب کچھ تباہ وبرباد ہو کر رہ گیا ہے۔

قارئین، اتنی لمبی تمہید اس لئے باندھی کہ پتا چلے کہ حالات کیا تھے، اب کیسے بن گئے اور آگے کیا صورت اختیار کرنے جا رہے ہیں؟ سرفہرست سوات میں بجلی اوور لوڈنگ، ٹرپنگ، زنگ آلود تار اور اٹھارہ تا بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ جیسے مسائل ہیں کہ جس نے جنت نظیر وادی کو جہنم زار بنا دیا ہے ۔ مذکورہ مسائل سے بسا اوقات گھروں میں پینے کا پانی تک ناپید ہوجاتا ہے۔ لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ بجلی لوڈ شیڈنگ سے سرکاری ٹیوب ویل بھی بیکار ہوگئے ہیں۔ پاؤر جنریٹر ٹیوب ویلوں کے لئے مختص تھے، لیکن پتا نہیں وہ کہاں چلے گئے؟ دریائے سوات کا تحفظ نہ ہونے کے سبب بھی اس کا پانی گندہ اور پینے کے قابل نہیں رہا ہے۔ ماربل فیکٹریوں کے گندے پانی نے رہی سہی کسر پورا کردی ہے۔ ستم بالائے ستم، ٹی ایم اے جیسا محکمہ بھی دریا اور نالوں کے پانی کو گندہ کئے جا رہا ہے۔ حکومتی توجہ ہے اور نہ ہی مسائل کے حل کے لئے مؤثر نظام۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وادئی سوات میں ایسے بے شمار مسائل ہیں، جنہوں نے اہل علاقہ کی زندگی لایعنی مسائل سے دو چار کی ہوئی ہے ۔

نا امیدی اور مایوسی اس لئے چھائی ہوئی ہے کہ دنیا اور خصوصاً پاکستان کے تیزی سے بدلتے حالات نے وادئی سوات کے لوگوں کے دلوں میں خوف اور نا امیدی کو جنم دیا ہے۔ کیونکہ وادئی سوات چونکہ سیاحتی علاقہ ہے، لیکن سیاحت کی حالت سب کے سامنے ہے۔ بے روزگاری اور گرانی کے عفریت نے لوگوں کے اوسان خطا کر دئیے ہیں۔

نا امیدی اور مایوسی اس لئے چھائی ہوئی ہے کہ دنیا اور خصوصاً پاکستان کے تیزی سے بدلتے حالات نے وادئی سوات کے لوگوں کے دلوں میں خوف اور نا امیدی کو جنم دیا ہے۔ کیونکہ وادئی سوات چونکہ سیاحتی علاقہ ہے، لیکن سیاحت کی حالت سب کے سامنے ہے۔ بے روزگاری اور گرانی کے عفریت نے لوگوں کے اوسان خطا کر دئیے ہیں۔

نا امیدی اور مایوسی اس لئے چھائی ہوئی ہے کہ دنیا اور خصوصاً پاکستان کے تیزی سے بدلتے حالات نے وادئی سوات کے لوگوں کے دلوں میں خوف اور نا امیدی کو جنم دیا ہے۔ کیونکہ وادئی سوات چونکہ سیاحتی علاقہ ہے، لیکن سیاحت کی حالت سب کے سامنے ہے۔ بے روزگاری اور گرانی کے عفریت نے لوگوں کے اوسان خطا کر دئیے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگری لے کر روزگار کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔ شیڈول کے مطابق چار گھنٹے لوڈشیدنگ ہے لیکن اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ، گیس لوڈ شیڈنگ ،پانی کی کمی، نکاسیٔ آب کے لئے زنگ آلود پائپوں سے کئی بیماریاں پھیلنے کے شواہد موجود ہیں۔ دریائے سوات کی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، سیکورٹی حصار اور اَنگنت مسائل سے نبرد آزما لوگوں پر اب مزید مصائب و مشکلات آزمانے کا پروگرام ہے۔ یاد رہے کہ سوات کے عوام بجلی کی مد میں سو فیصد بلنگ ادا کرتے ہیں۔ ان حالات میں سیاسی پارٹیاں آئیں گی اور الیکشن کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے کوئی کہے گا کہ ہم نے صحت اور پولیس کو ٹھیک کیا ہے، کوئی تعلیمی نظام بہتر اور پٹواری نظام کے خاتمے کا عندیہ دے گا۔ کوئی کہے گا کہ بلین ٹری سے انقلاب آچکا ہے۔کوئی یونیورسٹیز کے جال پھیلانے کا ذکر کرکے اپنے آپ کو الگ تھلگ ظاہر کرے گا۔ صوبے کے نام کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے گا۔ ایکسپریس وے پر ووٹ مانگے جائیں گے۔ کوئی طالبانائزیشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا زعم لے کر میدان میں اترے گا۔ کوئی بجلی ڈیم بنانے اور ٹھیکیداری تقسیم پر اپنا حق جتائے گا۔ کس نے کتنے ٹرانسفارمر لگائے؟ اس حساب کتاب میں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹی جائیں گی۔ کسی نے گلی کوچے پختہ کروائے، گرانٹ کی تختیاں ہی اس کا ثبوت ہیں۔ کوئی خادمِ اعلیٰ اور کوئی ناظم اعلیٰ گیس اور الیکٹرک فیڈرلگانے کا سزاوار ہے۔
واہ جی واہ! صاحب نے کتنے کتبے لگائے اور فیتے کاٹے۔ کوئی احتجاج کا بہانہ بنائے گا۔ کوئی اپنے آپ کو قوم کا اصلی وارث قرار دے گا۔ کسی کو مذہب اور قرآن کا غم کھائے گا۔ الغرض یہ’’ سیاہ ستدان‘‘ قوم کو ان مذکورہ مسائل کے حل کے طور کچھ بھی دینے میں بری طرح ناکام ہیں۔ لگتا ہے کہ ان صاحبان کے ساتھ کوئی حل نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ضلع سوات کی ریونیو ہی سوات پر لگائی جائے، تو شایدآدھے سے زیادہ مسائل ان پیسوں سے حل ہوجائیں۔

سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال کے پانچ سو بیڈ کا افتتاح قریبا ً پانچ چھے مرتبہ ہوچکا ہے اور رنگا رنگ فیتے بھی کاٹے جا چکے ہیں، مگرہسپتال اب تک کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال کے پانچ سو بیڈ کا افتتاح قریبا ً پانچ چھے مرتبہ ہوچکا ہے اور رنگا رنگ فیتے بھی کاٹے جا چکے ہیں، مگرہسپتال اب تک کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

ضلع سوات کے گوناگوں مسائل میں سر فہرست ٹریفک کے مسائل ہیں۔ یہاں بائی پاس ’’انڈر پاس‘‘ موجود نہیں ہے۔ فلائی اوور نہیں ہے، کوئی ہائے وے نہیں ہے۔رابطہ پلوں کی شدید کمی ہے۔ سڑکیں تنگ ہیں اور ٹریفک کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ روڈ زدہائیوں سے خستہ حال ہیں۔ملم جبہ اور کوکارئی روڈز سیاست زدہ ہوچکی ہیں۔ نئے تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ صحت کارڈ اور صحت انقلاب کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال کے پانچ سو بیڈ کا افتتاح قریبا ً پانچ چھے مرتبہ ہوچکا ہے اور رنگا رنگ فیتے بھی کاٹے جا چکے ہیں، مگرہسپتال اب تک کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ جگہ جگہ پڑی ہوئی گندگی بد بو پھیلا رہی ہے۔ گلی کوچہ کوڑے دان نما اور نالے گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، نکاسئی آب کا سسٹم خراب ہوچکا ہے۔ ڈرینج سسٹم سے نالے اوردریا گندگی میں تبدیل ہوکر صاف پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ سیورج سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔پی آئی اے سروس تو شروع نہیں ہوئی، البتہ سیدو شریف ائر پورٹ کانام ’’ثنا ء اللہ خان نیازی‘‘ رکھا جاچکاہے۔
جنگلات ختم ہوگئے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ سوات یونیورسٹی کے تمام برانچز کے لئے کوئی موزوں جگہ میسر نہیں۔جہانزیب کالج کی عمارت کو آفت زدہ قرار دے کر نئی عمارت بنانے کی منظوری درحقیقت ریاستِ سوات کے باقی ماندہ آثار کی مسماری کے مماثل شمار ہوگی۔ کوئی انڈسٹری یا انڈسٹریل زون تقریباً نا پید ہے۔سی پیک کے لئے کوئی رابطہ سڑک بھی نہیں دی گئی ہے۔کالام مہوڈنڈ روڈ کسی کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔کوئی پکنک سپاٹ نہیں ہے۔ٹی ایم اے شہری اور دیہاتی گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لئے دریائے سوات کا رخ کرتے ہیں۔ نیا کاروباری منصوبہ کوئی نہیں ہے۔ البتہ صرف ایک چیز میں تبدیلی آگئی ہے اور وہ ہے ٹریفک پولیس کا نظام۔ صاحبان مگر سوات آنے والے سیاحوں کے روٹ کو تبدیل کر لیتے ہیں اور بھاری جرمانے عائد کرکے پراگرس رپورٹ میں مصروف عمل ہیں۔ بہر حال ان کی کارکردگی پھر بھی تسلی بخش ہے۔
بس ووٹ اور الیکشن کا کھیل کھیلو۔ یہ مسائل دھیرے دھیرے حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہی کافی ہیں۔ مسائل جائیں بھاڑ میں۔ بس حکمرانوں کی شہ خرچیاں دیکھو ۔یہ آیا ہے شیر، اب نصاف اور تبدیلی دیکھو۔ بلا کھاؤ گے ہٹو، ترازو سے تولو۔وہ دیکھو کتاب میں سب لکھاہے۔ درختوں سے لدھے سبزہ زار وطن میں لالٹین سے ہرجگہ روشن ہوگئی ہے۔ بجلی کا کیاکرنا ہے؟ ڈیوہ ،کم خرچ بالا نشین ہے، وغیرہ ۔سب کو باری باری دیکھ لو، کوئی تو حل نکال ہی دے گا ۔