1930ء اور 40ء کی دہائی میں ہندوستان کی سیاست پر تین آدمیوں کا ڈنکا بجتا تھا۔ دیش بندھوسی أرداس، لالہ لاجیت رائے اور موتی لال نہرو۔ انہوں نے نئی نسل کے لیے جگہ خالی کی، تو اسے موہن داس گاندھی، جواہر لال نہرو اور سبھاش چندر بوس (Subhash Chandar Bose) نے پُر کیا۔ کانگرس کے یہ تین لیڈر نہ مسیحی Trinity (توحید فی التثلیث) کا نمونہ تھے اور نہ ان میں تاریخِ روما کی پہلی اور دوسری مجلس اربابِ ثلاثہ کی خوبیاں تھیں۔ یہاں تو یہ صورت حال تھی۔ سبھاش بابو سب سے بڑے لیڈر (گاندھی جی) کے سیاسی فلسفہ ’’اہنسا‘‘ کو (Bunkum) ڈھکوسلا قرار دیتا تھا۔
گاندھی جی کے بارے میں سبھاش بوس کی رائے یہ تھی کہ ’’کئی اعتبار سے وہ ایک مکمل عینیت پسند اور تخیل پرست شخص ہے۔ ایک لحاظ سے وہ بڑا چالاک سیاست دان ہے، بعض اوقات وہ ضدی اور متعصب بن جاتا ہے اور بعض موقعوں پر وہ بچوں کی طرح ہار مان لیتا ہے۔ وہ جوان اور فطری قوتِ فیصلہ جو سیاسی معاملات کے لیے انتہائی ضروری ہے، اس کا ان کے یہاں فقدان ہے۔ دوسرے بڑے راہنما جواہر لال نہرو نے اسے ہمیشہ اپنا حریف اور رقیب سمجھا۔ سبھاش بابو نے جواہر لال نہرو کو ثنویت اور دہرے پن کے پھندے میں پھنسا ہوا پایا۔ اس کا دماغ سوشلسٹوں کے ساتھ تھا اور دل گاندھی جی کے ساتھ۔ پہلے دونوں راہنماؤں کی مخالفت کے باوجود سبھاش بوس کانگرس کا تیسرا سب سے بڑا راہنما تھا۔
سبھاش چندر بوس کے والد جانکی ناتھ سرکاری وکیل تھے۔ ان کے چودہ بچوں میں سبھاش کا نمبر نواں تھا۔ میٹرک میں اس نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پریزیڈنسی کالج کلکتہ کا طالب علم تھا۔ ایک دن اچانک اس نے گھر بار کو چھوڑا اور گرو کی تلاش میں نکل گیا۔ برندابن، بنارس، گیا، ہری دوار، رکھی کیش اور کئی دوسرے پوتر استھانوں میں مارا مارا پھرتا رہا۔ کوئی مردِ کامل نہ ملا۔ چھے ماہ کے بعد ایک واقف کار نے اس کو دیکھ لیا اور واپس کلکتہ پہنچا دیا۔ وہ ڈگری کے امتحان میں اول آیا۔ کیمبرج سے ٹرائی پاس کیا۔ مقابلہ کے امتحان میں چوتھی پوزیشن آئی۔ آئی سی ایس ہوگیا۔ تربیت کا آغاز ہی ہو اتھا کہ ایک دن اس نے وزیر ہند کو استعفا پیش کر دیا۔ ہندوستان واپس پہنچا اور بار بار جیل جانا پڑا۔ جسم کب تک وہاں کی سختی اور تنگ گیری برداشت کرتا۔ ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ تپ دق ہوگئی۔ علاج کے لیے یورپ جانا پڑا۔ واپس آنا چاہا، تو بندرگاہ پر ہی حراست میں لے لیا گیا۔ ناچار پھر یورپ جانا پڑا۔ ایک بار جیل میں تھا، تو غیر حاضری کے باوجود کلکتہ کا میئر منتخب ہوگیا۔ دوسری مرتبہ انگلستان میں تھا، طبیعت خراب تھی۔ اس کے باوجود بلا مقابلہ آل انڈیا نیشنل کانگرس کا صدر منتخب ہوگیا۔ یہ 1938ء کی بات ہے۔ اس سے پہلے کانگرس کے پچاس سالانہ اجلاس ہوچکے تھے۔ یہ اکاون واں اجلاس دریائے تاپتی کے کنارے ہری پورہ کے مقام پر منعقد ہوا۔ سبھاش بوس بابو کے استقبال کے لیے پنڈال کے 51 دروازے بنائے گئے، 51 جھنڈے لہرائے گئے۔ صدر کی بیل گاڑی میں 51 بیل جوتے گئے۔ جلسے میں 51 قومی ترانے گائے گئے۔ استقبالیہ میں کہا گیا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں ایک ایسا صدر نصیب ہوا ہے جس کی زندگی خدمت، قربانی اور زحمت کشی سے عبارت ہے۔ 1939ء کے لیے کانگرس کے صدر کا انتخاب ہوا، تو حالات بالکل بدلے ہوئے تھے۔ دروازے نہ جھنڈے، بیل گاڑیاں نہ ترانے، گاندھی جی اور کانگرس کے دائیں بازو کے سارے اہم اراکین نے زور لگادیا کہ سبھاش بوس دوسری بار صدر منتخب نہ ہوسکیں۔ اتنی مخالفت کے باوجود وہ ڈاکٹر پٹا بھائی سیتادامیا کے 1377 ووٹ کے مقابلے میں 1580 ووٹ لے کر کامیاب ہوگیا۔ ہارنے والوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ مجلس عاملہ کے صدر کے ساتھ تعاون نہ کرے اور وہ ناکام ہوجائے۔ انہیں اس بار صدر کانگرس کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ انہوں نے استعفا دے دیا۔ ان کی جگہ بابودا جندر پرشاد کانگرس کے قائم مقام صدر ہوگئے۔ یہی وہی بابو صاحب ہیں جنہوں نے 15اگست 1947ء کو ہندوستان کی اسمبلی کے آدھی رات کے وقت ہونے والے سیشن کی صدارت کی تھی۔
سبھاش بوس نے کانگرس چھوڑ دی اور فارورڈ بلاک بنالیا۔ احتجاجی سیاست شروع کر دی۔ گرفتار ہوگئے، خیال تھا کہ اب سال دو سال ان کے بارے میں کوئی خبر سننے کو نہیں ملے گی۔ جیل میں سبھاش بوس کی صحت اتنی خراب ہوگئی کہ وہاں سے نکال کر گھر میں نظر بند کر دیے گئے۔ جنوری 1941ء کی بات ہے کہ ایک دن شام کے وقت ان کے بھتیجے نے موٹر نکالی۔ دروازے پر پہرے دار نے جھانکا۔ پچھلی نشست پر ترکی ٹوپی پہنے ہوئے ایک باریش بیمہ ایجنٹ بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا نام ضیاء الدین تھا۔ کلکتہ سے کوئی دو سو میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے اسٹیشن سے ضیاء الدین ریل گاڑی میں تنہا سوار ہوا اور پشاور پہنچ گیا۔ اس کا میزبان ایک ہندو تھا جو عارضی طور پر رحمت خان بن گیا تھا۔ چند دن کے بعد رحمت خان اپنے گونگے اور بہرے چچا کو لے کر زیارت کے لیے کابل روانہ ہوگیا۔
وہ شخص جسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اچھی طرح جانتے تھے، پہچانتے تھے، سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پہلے روس پہنچا، پھر وہاں سے جرمنی چلا گیا، جہاں مایوسی اس کا انتظار کررہی تھی۔ ایڈولف ہٹلر نے جس کے نام سے ان دنوں دنیا کانپ جاتی تھی، سبھاش بوس سے کہا کہ ابھی ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد شروع کرنے کا وقت نہیں آیا۔ کھرے اور کھردرے سبھاش بوس نے جواب دیا کہ میں اپنی ساری عمر ہندوستان کی سیاست کی نذر کرچکا ہوں، لہٰذا اس سلسلے میں مجھے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔
سبھاش بوس اٹلی چلا گیا۔ وہاں بھی ہندوستان کی آزادی میں دلچسپی لینے والا سرپرست نہیں مل سکا۔ تنگ آکر وہ ایک آبدوز کشتی کے ذریعہ کوئی تین ماہ کے تکلیف دہ اور خطرناک سفر کے بعد جاپان پہنچ گیا۔ وہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سنگاپور میں آزاد ہندوستان کی حکومت قائم کی گئی۔ آزاد ہند فوج وجود میں آئی۔ اس فوج کو برما میں کچھ کامیابی ملی جس پر جاپان نے خوش ہوکر انڈمان نکو بار مجمع الجزائر آزاد ہند کی سرکار کو دے دیے۔ آزاد ہند کی عارضی حکومت وہاں منتقل ہوگئی۔ آزاد ہند فوج کا ایک نیا مرکز رنگون میں قائم کیا گیا۔ تاکہ ہندوستان میں داخل ہوکر انقلاب اور آزادی کی راہ ہموار کی جائے۔ رنگون میں آزاد ہند کا پہلا قومی بنک بھی قائم کیا گیا۔ سبھاش بوس اس وقت تک خاص و عام کے نیتاجی بن چکے تھے۔ آزاد ہند فوج ہندوستان میں داخل ہوئی۔ امفال کے مقام پر اسے روک لیا گیا۔ روکنے والی فوج کا تعلق برطانوی ہند سے تھا۔ اس کے بعد آزاد ہند فوج کی پسپائی شروع ہوئی۔ یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے ملیریا، اسہال، برکھارت اور ہوائی حملوں نے انجام دیا۔ اُدھر یورپ میں جنگ کا پانسا الٹ گیا۔ مئی 1945ء کے پہلے ہفتہ میں جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ جاپان تنہا کب تک لڑتا۔ اُس پر دو ایٹم بم گرائے گئے اور جاپان نے اگست کے دوسرے ہفتہ میں شکست تسلیم کرنے کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ سبھاش بوس نے طے کیا کہ اب روسی راہنماؤں اور روس کی فوجی کمان سے ہندوستان کی آزادی کے لیے مدد کی درخواست کی جائے۔ وہ آزاد ہند کی فوج کے کرنل حبیب کے ساتھ فارموسا سے 18اگست کو دس بجے صبح ڈائے دن کے لیے روانہ ہوئے۔ ہوائی جہاز نے صرف ہوائی اڈے کی پٹی پر اپنی دوڑ پوری کی اور ہوا میں بلند ہوتے ہی دھماکہ کے ساتھ پھٹ گیا۔ کرنل حبیب کا بیان ہے کہ سبھاش بوس کو معمولی چوٹ آئی تھی۔ زخمیوں کو فارموسا ریڈکراس ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ نیتاجی سے کسی کو ملنے نہ دیا۔ دو گھنٹے کے بعد صرف اتنا سننے میں آیا کہ ’’سبھاش بوس اِز نو مور……!‘‘
جتنے منھ اتنی باتیں۔ نیتاجی زندہ ہیں۔ روس والے انہیں متابیریا لے گئے ہیں۔ دس سال تک بغیر نام کے وہاں رکھیں گے۔ وہ چین چلے گئے ہیں۔ وہ آسام کی سرحد پر ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کے انجام کے بارے میں کئی افراد نے تحقیق کی۔ دو مرتبہ باقاعدہ کمیشن بنائے گئے۔ ایک کھوسلا کمیشن تھا اور دوسرا مکرجی کمیشن۔ نہ جانے کیا بات ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے بذاتِ خود نیتاجی کی لاش دیکھی ہے۔ اس کے برخلاف کئی آدمیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ہندوستان کے سرحدی علاقہ میں سبھاش بوس سے ملے ہیں۔ وہ نام اور بھیس بدل کر نئی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اپنے دعویٰ کو کوئی سچ ثابت نہ کرسکا۔ نہرو کی آرتھی اٹھائی گئی، تو ایک شخص وہاں سبھاش کی شکل کا موجود تھا۔ پتا کیا تو وہ (Vira Jharmawen) نکلا۔ ویت نام کی جنگ کے دوران میں کئی ذمہ دار امریکی کہتے تھے کہ ویت نامیوں کو دوسری جنگ عظیم کے لاپتا جرنیلوں کی مدد حاصل ہے۔
1978ء میں ہندوستان کی پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں شاید آنجہانی کی راکھ یا ان کے پھول کی نمائش کے موقع پر صدر ریڈی نے کہا ’’نیتاجی بالا آخر آج یہاں آہی گئے ہیں، مگر وہ اس صورت میں نہیں آئے جس کا ہمیں انتظار تھا۔‘‘
سبھاش چندر بوس کی موت ایک معمہ ہے جو آج تک حل نہ ہوسکا۔ (مختار مسعود کے حرفِ شوق سے ماخوذ)
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔