انسان میں خیر اور شر کی دونوں خصوصیات موجود رہتی ہیں۔ کسی میں شر غالب آتا ہے اور کسی میں خیر کی صفات غالب رہتی ہیں۔ ماحول اس پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ یورپ میں رہنے والے کسی مشرقی ملک میں بسنے والوں کی نسبت شراب کے زیادہ عادی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح مشرق میں رہنے والا یورپ کی زندگی کی سیاسی آزادی میں زندگی گزارنے والے کی بہ نسبت سیاسی گھٹن کا زیادہ شکار اور انسانی آزادی کی خصوصیات سے تہی دامن ہوگا۔ ماسکو کی گلیوں میں پروان چڑھنے والا بچہ مشرقی اردن میں پلنے والے بچے کی بہ نسبت الحاد کی تاریکیوں میں زیادہ ڈوبنے کے قریب ہوگا۔ ایک ایسا گھرانہ جو غربت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، جو تنگ و تاریک اور بدبو دار گلیوں کے بیچ میں واقع ہوتا ہے۔ اُس گھرانے سے قطعی مختلف انداز اور سوچ کے حامل افراد پر مشتمل ہوگا جہاں صفائی، ہوا، روشنی اور سبزہ ہو، کھلی سڑکیں اور کھلے گھر ہوں۔ ایسے ماحول میں پلنے والا ذہن، مثبت سوچ اور ملک کی تعمیر کے بارے میں بہتر انداز رکھتا ہے۔ ایک اچھی حکومت اپنے عوام کو ایسے ہی روشن ماحول کو فراہم کرنے میں کوشاں رہنے کو اپنا فرض سمجھتی ہے اور اکثر مغربی معاشروں میں ایسے ہی ہورہا ہے، وہاں پھر عوام بجلی اور آٹے کے بارے میں ذہن کے خلیوں کو کمزور نہیں کرتے، اور نہ اُنہیں اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ پیمپرمہنگا ہے، اسے کم سے کم استعمال کیا جائے۔ انہیں اس بات کا بھی خدشہ نہیں ہوتا کہ راستے میں سکیورٹی چیکنگ کی وجہ سے وہ تاخیر کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اجتماعی طور پر اُن کی سوچ مثبت انداز سے چیزوں کا تجزیہ کرنے کے لیے فارغ ہوتا ہے۔ پھر نت نئی ایجادات کی راہیں کھلتی ہیں۔ اُن کی سوچ کا زاویہ بہت وسیع حد تک پھیلتے ہوئے پھر آسمان کی وسعتوں میں کھوج لگاتے نئی دریافتوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نوجوان ذہن مختلف قسم کی ذہنی و جسمانی تحریکوں اور سائنسی نمائش کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں مصروف رہتا ہے۔ فنون کی نئی راہیں دریافت کرتا ہے، مگر یہاں ہماری نوجوان نسل جو اپنے بڑوں کی نا اہلی کی وجہ سے اور بے انصافی کے غبار میں آلودہ اندھیری رات کے وہ مسافر ہیں جن کی کوئی منزل واضح نہیں، جن کی آنکھیں لوڈشیڈنگ کی تاریکیوں میں کھلتی اور بدامنی کے دھوئیں میں بند ہوتی ہیں۔ وہ ایک ایسی بندگلی میں کھڑے ہیں جن سے نکلنے کے کئی راستے ہیں مگر ہر راستے پر بے انصافی کا ابوالہول اُن کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ ایسا ذہن پھر چور دروازوں کی طرف نکل پڑتا ہے۔
لاہور کے ایک تعلیم یافتہ انسان کی کہانی بھی تو کچھ ایسے ہی تھی جو ایک بینک میں چوکیدار تھا۔ دن بھر بھاری ہتھیار لیے گیٹ پر ایک مجسمے کی طرح ایستادہ رہتا، مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ گذشتہ چار مہینوں سے گھر کا کرایہ ادا کرنے سے لاچار تھا اور مالکِ مکان اُسے گھر سے نکالنے کا نوٹس دے چکا تھا۔ سرکاری سکول گھر سے دور تھا اور وہاں اندرون لاہور کے بچے کیڑے مکوڑوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر پڑے تھے۔ اس لیے مجبوراً قریبی پبلک سکول میں بچوں کو مہنگی فیس پر ڈال رکھا تھا۔ پرائیویٹ بینک میں اُسے صرف اُنیس ہزار سات سو روپے کا جو مشاہرہ ملتا تھا، وہ کچھ ایسا تھا جس سے زندگی کی گاڑی کھسک کھسک اور سسک سسک کر چل رہی تھی۔ ایک ایسی چادر جس سے سر ڈھانپو، تو پاؤں وقت کی دھوپ میں عریاں ہوکر جلتے ہوں۔ اقبال کی زندگی میں وہ ایک منحوس دن تھا جب ایک ایس ایچ او کے بگڑے آوارہ مزاج جوان بیٹے کی اندھا دھند بھاگتی بائیک کے سامنے اُس کا آٹھ سالہ بیٹا آگیا اور اُسے لہولہان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ڈاکٹروں نے ایک دن بعد بتایا کہ دماغ پر شدید چوٹ کی وجہ سے آپریشن کرنا پڑے گا، اور فوری طور پر تین لاکھ روپے جمع کرنے کی ’’خوش خبری‘‘ سنائی گئی۔ بے انصافی کا ناگ پھن پھیلا کے کھڑا تھا۔ وہ شخص آج علاج کے لیے مارا مارا بھیک مانگتا پھر رہا تھا۔ جس کے سامنے کاؤنٹر پر روزانہ کروڑوں روپے کے نوٹوں کے بنڈل ادھر سے اُدھر ہوتے رہتے تھے، جس میں سے اُسے صرف انیس ہزار سات سو روپے ملتے تھے۔ آخر اُس کی مجبوری اُسے مایوسی اور چور دروازوں کی تاریک گلیوں میں گھسیٹ لائی۔ اپنے ایک بے روزگار دوست سے مل کر جو چرس کا بھی عادی تھا، ڈاکا ڈالا۔ کیوں کہ اُسے بینک کی کمزوریاں اور پوشیدہ معلومات حاصل تھیں۔ اس لیے ڈاکا کامیاب رہا۔ اُس کے دوست نے اپنے دو اور ساتھیوں کے ذریعے اقبال کو اسلحے کی نوک پر رکھتے ہوئے ایک کامیاب واردات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اور اسلحہ لہراتے ہوئے فرار ہوگئے، مگر دو روز بعد اقبال کا دوست پکڑا گیا اور اس کے اقبالی بیان پر اقبال بھی دھرلیا گیا۔ اس کی یہ کہانی اُس کی گرفتاری کے بعد منظر عام پر آئی تھی۔
قارئین کرام! آئیں، اس بات کا فیصلہ کریں کہ کون اقبال کو بے انصافی کی بند گلی میں دھکیلنے کا ذمہ دار ٹھہرا؟ شائد ڈاکٹروں کے روپ میں وہ قصائی یا بے انصافی کی بنیاد پر کھڑا معاشرہ اور حکومت؟ ایک ایسا شخص جس کے سامنے کرنسی نوٹوں کے سیکڑوں بنڈل ایک قطار میں کھڑے ہوتے تھے اور ایک چھوٹا سا بنڈل اُس کے بیٹے کی زندگی لوٹا سکتا تھا، مگر اُسے اس سے محروم رکھا گیا۔ حکومت جو کہ باپ کی طرح رعایا کی ضروریات پورا کرنے کی پابند ہے اور اس کا حلف بھی اٹھاتی ہے کیا وہ اُس کی ذمہ دار ہے؟
یہ کہانی ایک اقبال کی کہانی نہیں۔ اس معاشرے میں ہر تیسرا انسان اقبال ہے، جو اپنی مجبوری اور اس غلط سسٹم کے ہاتھوں اس ملک کے خوشۂ گندم کو جلانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جب تک انصاف اور انسانی حقوق کا معاملہ صرف تقریروں تک محدود رہے گا، تو اس ملک اور سماج میں اقبال کا آفتاب ڈھلتا رہے گا اور اقبال مندی اس ملک سے رخصت ہوتی رہے گی۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔