مختلف اقوام میں جنت کا تصور (مختصر ترین جائزہ)

جنت کا تصور ہر قوم و نسل کے پاس کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ ہندوؤں کے ہاں اس کا نام ’’سورگ‘‘ ہے، جو دوسرے آسمان پر ہے اور اس کا دیوتا ’’اِندر‘‘ ہے۔ چناں چہ اسے ’’اِندر لوک‘‘ (اِندر کی دنیا) بھی کہتے ہیں۔
قدیم عراق میں جنت زمیں پر ہی تھی، جہاں اونچے اونچے درخت تھے جو پہاڑ کے اوپر واقع تھی۔ اس کا نگران ’’جمبابا‘‘ نامی ایک دیو مالائی مخلوق تھی۔ داستانِ گِلگماش (Gilgamash) کے ہیرو نے ’’جمبابا‘‘ کو پچھاڑ کر اس جنت کو فتح کیا تھا۔
یونانیوں کے مطابق یہ جنت اولمپس پہاڑ پر ہے، جہاں دیوتا رہتے ہیں۔
یہودیوں کی تورات میں اس کا ذکر یوں آتا ہے: ’’اور پھر خدا نے مشرق کی طرف ایک باغ لگایا اور انسان کو جو اس نے بنایا تھا، اس کو اس میں رکھا۔ یہاں پر درخت جو دیکھنے میں اچھا تھا، اور باغ کے بیچ میں زندگی اور نیک و بد کی پہچان کے درخت کو زمیں سے اُگایا اور عدن سے ایک دریا باغ کو سیراب کرنے کے لیے بہتا تھا اور وہاں سے یہ دریا چار شاخوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک کا نام فیسون تھا، جو حویلے کی ساری زمین کو سیراب کرتا تھا۔ وہاں بہت اچھا سونا پیدا ہوتا ہے۔ وہاں ہیرے اور بلور بھی ہوتے تھے۔ دوسری نہر کا نام جیجون تھا۔ جو کوش کی ساری زمین کو سیراب کرتاہے۔ تیسری کا نام دجلہ ہے جو اسور کے مشرق میں ہے اور چوتھی کا نام فرات ہے۔ (پیدائش باب 6، آیت 14)
(سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب ’’پشتون اور نسلیاتِ ہندوکش‘ مطبوعہ ’’سانجھ پبلی کیشن‘‘ جلد اول، صفحہ نمبر173 اور 174 سے انتخاب)