ہماری یادداشت کے مطابق یعنی آج سے پچاس پچپن برس پہلے جب زندگی کی سہولیات آج کے مقابلے میں اتنی وافر نہیں تھیں، یقینا لوگ نہایت تنگ دستی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ قدرت کی فیاضی تھی کہ انسان سائنسی ترقی میں کافی حد تک بڑھ گیا جس کے نتیجے میں پیداوار بڑھ گئی اور کئی سہولتیں میسر آئیں۔ آج جب کہ ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے اور پیسا بھی کم از کم ہر شخص کے پاس حسبِ ضرورت موجود ہے، لیکن پھر بھی لوگ مہنگائی اور بے برکتی کا رونا روتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس کی بڑی وجہ ہماری زندگی میں بے اعتدالی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی دعوت یا خیرات کو جائے، تو واپسی پر کیمسٹ کی دکان سے پیٹ کی دوائی خریدتا ہے۔ بعض اشخاص گھر میں بھی کھانے پینے میں اعتدال نہیں کرتے، اور عموماً بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیماری کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی تکلیف کے ساتھ مالی بوجھ بھی اُٹھاتے ہیں۔ آج کل عالمی سطح پر پانی کا شدید بحران ہے، لیکن پھر بھی ہم لوگ پانی جیسی نایاب نعمت کا بے دریغ اور بلاضرورت استعمال کرتے ہیں۔ گلی، کوچوں، گھروں اور مساجد وغیرہ میں پانی کے استعمال میں کبھی اعتدال کا خیال نہیں کرتے۔ پانی کی ٹونٹی عموماً کھلا چھوڑ کر پانی ضائع کرتے ہیں۔ ہاتھ دھونے، نہانے، برتن صاف کرنے اور کپڑے دھوتے وقت بھی ہم اعتدال سے کام نہیں لیتے۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’خیر الامور او سطہا‘‘ یعنی ’’بہترین کام اعتدال اختیار کرنا ہے۔‘‘ وطنِ عزیز کا بڑا اور اولین و بنیادی مسئلہ فی زمانہ لوڈشیڈنگ کا ہے، لیکن ہم لوگ بجلی کی استعمال میں کفایت شعاری تو دور کی بات، اعتدال بھی نہیں کرتے۔ کمروں، برآمدوں اور گلی کوچوں اور دکانوں میں بلا ضرورت کئی بلب جلا رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوئی گیس کا بھی بلا ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ پنجاب میں لوگ ہر کمرے میں گیس ہیٹر جلاتے ہیں۔ حالاں کہ وہاں سردیوں میں موسم معتدل ہوتا ہے۔ کھانا پکاتے وقت ہم عموماً زائد از ضرورت اشیا لاتے ہیں اور پھر فالتو خوراک جیسے چاول، سبزیاں، گوشت کی بوٹیاں، زردہ پلاؤ وغیرہ عموماً گلیوں، نالیوں اور گندگی کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم فرائی روٹیاں، کیک پیسٹریاں، ڈبل روٹی، عمدہ کتابیں اور کاپیاں بھی کباڑ کی دکانوں میں دیکھتے ہیں جب کہ مغربی ممالک میں ایسے مناظر نظر نہیں آتے۔ حالاں کہ وہ لوگ خوب متمول ہیں اور انہیں زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔
ہمارا یہ بھی ذاتی مشاہدہ ہے کہ جب کوئی مریض ڈاکٹر کے نسخہ کے مطابق بازار سے ادویہ خریدتا ہے جب کہ بیشتر مریض انہیں مستقل مزاجی سے استعمال نہیں کرتے اور درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں۔ بعد میں مذکورہ قیمتی ادویہ نیم استعمال شدہ حالت میں الماریوں، میزوں اور دیواری تختوں پر پڑی رہتی ہیں۔ یہ ادویہ یا تو ایکسپائر ہوجاتی ہیں، یا گندگی کے ڈھیر پر پھینکی جاتی ہیں۔ ہم نے خود کئی دفعہ قیمتی ادویہ گندگی کے ڈھیر پر پڑی دیکھی ہیں، بلکہ ہم نے بذاتِ خود کام کی دوا گلی کوچوں سے اُٹھائی اور کسی حاجت مند کو دے دی۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد کپڑوں، جوتوں اور اس سے متعلق کئی اور اشیا کے خریدنے میں اعتدال نہیں کرتے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کرنا اُس کی نعمتوں کی نا شکری ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم زندگی کے تمام کاموں، ضرورتوں اور دیگر لوازمات میں اعتدال سے کام لیں۔ کیوں کہ اعتدال زندگی میں کامیابی کی کنجی ہے۔

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔