حسن کی وادی ’’سوات‘‘ میں حالیہ سیاحتی سیزن کے دوران میں سیاحوں کے لوٹنے کے پے در پے واقعات کے بعد اہلِ سوات کو شدید ندامت کا سامنا کرنا پڑا کہ مہمان نوازی کے لیے مشہور وادی میں لوٹ کھسوٹ کا رواج کیسے چل پڑا؟
سول سوسائٹی کو یہ شبہ بھی لاحق ہوا کہ کہیں شرپسند عناصر ایک بار پھر سازشی چال چلا کر سوات کو بدنام اور سیاحت کی نیّا کو ڈبونے کی مذموم کوششوں میں تو نہیں لگے ہیں؟ یہی غم دل پہ لیے سوات کا میڈیا، پولیس اور انتظامیہ سے مسلسل ڈکیتوں کی کھوج لگانے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے متحرک ہوا۔ اسی دوران میں ڈکیتی کا ایک اور واقعہ کالاکوٹ پولیس سٹیشن کے احاطے میں ہوا، لیکن ’’مثالی پولیس‘‘ نے ایک اور مثال قائم کی۔ ڈی ایس پی سرکل مدین فضل سبحان صاحب نے عزت مآب جناب ڈی پی او سوات دلاور بنگش کی ہدایت پر سیاحوں کی داد رسی کے لیے دیگر کچھ سیاحوں کو حبسِ بے جا میں رکھ کر شدید تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں کا تعلق مردان سے تھا اور وہ طلبہ تھے، جو سیر و تفریح کی غرض سے کالام آئے تھے۔
پھر بعد میں جب ان کے اہلِ خانہ کو خبر ہوئی، تو سابق ایم این اے مردان حمایت اللہ مایار نے سوات پہنچ کر ایک پریس کانفرنس میں طلبہ کا مؤقف حکومت کے سامنے پیش کیا اور اپنے صدمے کا اظہار کیا۔ سوات کے صحافیوں نے تحقیقاتی رپورٹس شائع کیں، مگر مثال قائم کرنے والی پولیس، طلبہ کو چور ثابت کرنے کے مختلف جواز پیش کرتی رہی اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا باعثِ شرم سمجھتی رہی۔ اس دوران میں پولیس نے چند ’’صحافیوں‘‘ کو بھی اس مہم کا حصہ بنا لیا کہ کسی طرح پولیس کے بیانیے کو درست ثابت کیا جائے۔ پھر جب سوات اور مردان میں سول سوسائٹی نے طلبہ پر تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے، تو ان کو قانون شکن اور ریاست دشمن ظاہر کرنے کی ایک بھرپور مہم چلائی گئی۔
مگر قانونِ فطرت ہے کہ حق کو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
اسی اثنا میں آئی جی پی خیبر پختونخوا اچانک سوات میں قدم رنجہ فرما گئے اور صحافیوں کے سوال پر کھل کر حقائق سامنے رکھ دیے۔ انہوں بتا کہ مردان کے بے گناہ طالب علموں کی گرفتاری اور تشدد پر افسردہ ہیں اور ان کے گھر جرگہ بھیج کر عزت دیں گے۔
جنابِ من! اگر جان کی امان پاؤں، تو ایک اور سوال اس تحریر کے ذریعے سامنے رکھنے کی جسارت کروں…… کہ اگر قانون کے رکھوالوں سے سنگین غلطی سرزد ہوجائے، تو قانون اور عدالت کو کھڈے لائن لگا کر جرگوں اور پنچایتوں سے ’’عزت‘‘ دینے کا عمل کافی ہوتا ہے؟
اور کیا کسی عام شہری کی غلطی ثابت نہ ہو، تو پھر بھی اسے سیدھا حوالات، تشدد اور پھر جیل بھیجا جائے گا؟ اس حوالہ سے آپ جناب کا قانون کیا کہتا ہے؟
پاکستان کی عدلیہ پر بھی کبھی کبھار سوال اٹھانے کی گستاخی نہ کرنے پر ہم کُڑھتے ہیں، لیکن کُڑھنے کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے؟
جنابِ من! جہاں تک ہم عوام سمجھتے ہیں تو سرکار اور عوام کا ایک باقاعدہ آئینی معاہدہ ہے کہ جرم چاہے وزیراعظم کرے یا ایک مزدور ریڑھی بان، سزا و جزا کا طریقۂ کار ایک ہی ہوگا۔ لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ طالب علموں کے پورے خاندان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کے بعد باوردی جرگے سے وہ بحال ہوجائے گی؟
قارئین میں سے اگر کوئی قانونی ماہر ہے، تو میرے علم میں اضافہ فرمائیے کہ کیا عدالتیں بھی آئینی اور قانونی سزا کی بجائے جرگوں اور پنچایت کے فیصلوں پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں؟
اب تو آئی جی پی صاحب خود اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کے ڈی پی اُو اور ڈی ایس پی سے ’’جرم‘‘ سرزد ہوچکا ہے۔ میری طرف سے بار بار سوالات اٹھانے کی گستاخی ہورہی ہے کہ کیا انصاف کا یہ معیار ہے کہ بجائے ذکر شدہ دونوں باوردی صاحبان کو معطل کیا جاتا یا کم از کم تبادلہ ہی کردیا جاتا، اس کی جگہ جرگوں کے ذریعے ان کی نوکریاں بچانے کی کوشش کیوں ہو رہی ہے؟
میرے خیال میں مردان اور سوات کی سول سوسائٹی کو قانون کے ان رکھوالوں کے خلاف ہائی کورٹ میں ہتکِ عزت اور ہرجانے کا کیس دائر کرکے فیصلہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر معزز عدالت خود یہ فیصلہ سنائے گی کہ جس طرح ان طالب علموں پر ظلم ڈھایا گیا، ان کی تصاویر پر ’’چور‘‘ کا عنوان دے کر سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر نشر کرکے ان کی عزت نفس مجروح کی گئی اور ان کو حبسِ بے جا میں رکھ کر تشدد کا بنایا گیا، اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟
امیدِ واثق ہے معزز عدالت میں اس کے لیے کوئی واضح سزا کا طریقۂ کار موجود ہوگا۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔