ہر سال 5 اکتوبر کو ساری دنیا میں اساتذہ کا دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلی دفعہ اس دن کے منانے کا سہرا ایک ڈکٹیٹر کے سر ہے، یعنی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہلی بار عالمی یومِ اساتذہ منایا گیا۔
وطنِ عزیز میں عرصۂ دراز سے یہ بحث چل رہی ہے کہ اساتذۂ کرام رول ماڈل کیوں نہیں رہے؟ اس کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ کہ ہمارے معاشرے خصوصاً حکم رانوں نے اساتذہ کو وہی حیثیت نہ دی جو ان کی شایانِ شان تھی۔ اسے ایک عام سرکاری اور بے اختیار ملازم سمجھا گیا۔ کہیں اسے گلی کوچوں میں پھرا کر بچے داخل کرانے اور ’’ٹارگٹ‘‘ پورا کرنے پر لگایا گیا اور کہیں مردم شماری کے کام پر لگا کر اس کی قدر و منزلت کم کردی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کسی طالب علم سے پوچھا جائے کہ وہ مستقبل میں کیا بننا چاہتا ہے، تو اکثریت کا جواب عموماً یہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ باقی اقلیت میں سے کوئی انجینئر، کوئی پائلٹ اور کوئی فوجی افسر بننے کی خواہش کا اظہار کرے گا…… لیکن ہم نے اُن میں سے کسی کو بھی یہ کہتے نہیں سنا کہ وہ مستقبل میں استاد بننا چاہتا ہے۔
وطنِ عزیز میں تدریسی عمل سے وابستہ ان لوگوں کو اپنے مطالبات کے حل کے لیے سڑکوں پر آنا پڑا۔ جواب میں ان کے جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں پر بعض اوقات لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی اور اساتذہ رہنما حوالات اور جیل بھی گئے۔ ایسے میں کون اپنے بچوں کو استاد بنائے گا؟
دنیا جانتی ہے کہ طبقۂ مقتدرہ (رولنگ کلاس) میں سے زیادہ تر سیاست دان اور بیوروکریٹس اور منتخب نمایندے سرکاری سکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں اور ان غریب سرکاری اساتذہ نے ان کی تعلیم و تربیت کی ہے، لیکن اقتدار کی فرعونی کرسی پر براجمان ان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے کبھی اساتذہ کے حق میں بات نہیں کی، جب کہ ان لوگوں کے پاس سرکاری وسایل اور دنیا جہاں کی نعمتیں اور سہولتیں ان غریب اساتذہ کی مرہون منت ہیں، جنھوں نے ان کو پڑھایا سکھایا اور تربیت دی، جب کہ اس کے برعکس سرکاری اساتذہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قلیل تنخواہ میں نہایت کس مہ پرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ذاتی مکان تو دور کی بات، اساتذہ عموماً کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جو عموماً ناموزوں ہوتے ہیں۔ ان کے بچے مالی مشکلات کی وجہ سے اعلا تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ اساتذہ اور ان کے بچوں کو ڈھنگ کی خوراک اور کپڑے اور پاپوش بھی میسر نہیں ہوتی۔
ریٹائرمنٹ کے موقع پر غریب سرکاری اساتذہ کو معمولی فنڈز اور قلیل پنشن دی جاتی ہے جس پر یہ لوگ تا دمِ آخر گزر اوقات کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف جب ڈاکٹرز اور بیوروکریٹس ریٹائر ہوتے ہیں، تو انھیں بھاری فنڈز اور معقول پنشن ملتی ہے۔ یہ لوگ بنگلوں اور پلاٹوں کے مالک ہوتے ہیں جہاں یہ اپنی اولاد جو اعلا عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں، کے ساتھ اپنی زندگی فراغت کے ساتھ گزارتے ہیں۔ غور کریں ان حالات میں اساتذۂ کرام کیوں کر ’’رول ماڈل‘‘ بن سکتے ہیں؟
ضمیمہ:۔ جرمنی میں اساتذہ کو سب سے زیادہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے ججوں، ڈاکٹروں اور انجینئروں نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا۔ یہ خبر جرمنی کی چانسلر تک پہنچی، تو جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بڑا خوب صورت جواب دیا کہ ’’آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کردوں، جنھوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے؟‘‘
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔