آج ناروے کے شہر برگن میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ممتاز علمبردار امروز پرویز اور پروینہ آہنگرکو رفٹو میموریل پرائز سے نوازا جا رہا ہے۔ یہ ایوارڈ دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے غیر معمولی خدمات سر انجام دینے والی شخصیات کو دیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ رفٹو فاؤنڈیشن نے ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پروینہ آہنگر اور امروز پرویز برسوں سے تشدد، عسکریت پسندی اور کشیدگی کے خلاف سرگرم ہیں۔ محترمہ پروینا آہنگر کشمیر کی آئرن لیڈی کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ وہ کئی برسوں سے گمشدہ نوجوانوں کو تلاش کرنے کا کام کر رہی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں حراست کے دوران میں گم کردیا گیا یا پھر وہ کسی تہہ خانے میں زندگی کے ماہ وسال پورے کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ یہ ایوارڈ وکالت کے پیشے سے وابستہ اور انسانی حقوق کے علمبردار پرویز امروز کودیا گیا۔ پرویزامروز جموں و کشمیر کولیشن فار سول سوسائٹی کے بانی ہیں، جو انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ نوے کی دہائی ہی سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کئی بار ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ نامساعد حالات اور بے شمار مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا۔ یہ ایوارڈ انسانی حقوق کے ممتاز ناریجن علمبردار پروفیسر ٹورولف رفٹو کی یاد میں دیا جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنی عمرِ عزیز کا زیادہ تر حصہ ناروے اور ہمسایہ ممالک میں پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
ناروے مسئلہ کشمیر کے انسانی پہلو کو اجاگر کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ خاص کر اس ایوارڈ نے مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا دیا۔ اس ایوارڈ کے بعد ایک ہزار لوگ برجن شہر میں شمع بردار جلوس نکالیں گے اور ایوارڈ حاصل کرنے والے کشمیریوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ ناروے میں نوے کی دہائی سے کشمیر کے حوالے سے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور سماجی حلقوں میں سرگرم سردار علی شاہنواز خان نے بتایا کہ نارویجن پارلیمنٹ میں ابھی تک سترہ مرتبہ کشمیر پر بحث ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھی ناروے میں علی شاہ نواز کی سربراہی میں قائم کشمیری سکینڈے نیوین کونسل نے کئی ایک مظاہرے کیے جن میں مقامی شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔پارلیمنٹ میں بھی کشمیر پر ایک گروپ قائم ہے جو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر مسلسل آواز اٹھاتا ہے۔
کشمیر کے حوالے سے بہت کم کوئی ایسی خبر آتی ہے جس پر مسرت کا اظہار کیا جاسکے لیکن پرویز امروز اور آہنگر کو ملنے والا ایوارڈ اس اعتبار سے خوشی کی خبر ہے کہ بالآخر دنیا نے ان کی جدوجہد کا اعتراف کرلیا۔ کشمیری لیڈروں یا انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بیرونی دنیا تک بہت کم رسائی ملتی ہے۔ نہ ہی عالمی سطح پر سرگرم ادارے کشمیر کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ کشمیر کے گمنام ہیروز کو بہت کم عالمی پذیرائی ملتی ہے۔ پرویز امروز اور پروینہ آہنگر کی ریاستی جبر اور زیادتیوں کے خلاف جدوجہد تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ پرویز امروز کے ایک اور ساتھی خرم پرویز ہیں، جو سری نگر میں گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل سرگرم ہیں۔ گذشتہ سال انہیں جینوا جاتے ہوئے دہلی ایئر پورٹ پر گرفتار کیا گیا، تو دنیا بھر کے نامور دانشوروں، جن میں نوم چومسکی جیسی شخصیات بھی شامل ہیں، نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان کی تنظیم کولیشن فارسول سوسائٹی نے حال ہی میں Structures of Violence: the Indian State in Jammu and Kashmir کے عنوان سے معرکۃ الآرا رپورٹ لکھی۔یہ دستاویز ریاست کی جانب سے عدلیہ، پولیس اور دیگر اداروں کو عام شہریوں کے حقوق سلب کرنے کے لیے جس بے رحمی سے استعمال کیا جاتا ہے، کی حقیقت بے نقاب کرتی ہے۔ ان تمام سرکاری اہلکاروں کے نام اور رینک بھی رپورٹ میں لکھ دیئے گئے جو انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث پائے گئے۔اس ریاضت کا مقصد یہ ہے کہ ممکن ہے کہ آج کی تاریخ میں ان اہلکاروں کو سزا نہ دی جاسکتی ہو لیکن ان کی زیادتیوں اور ظلم کا پورا ریکارڈ شواہد کے ساتھ محفوظ ہونا چاہیے، تاکہ وقت آنے پر ان کے خلاف جنگی جرائم یا نسل کشی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا جاسکے۔ آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا پہلے کی طرح کا محدود تصور باقی نہیں رہا۔ اب دنیا کے کسی بھی خطے میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث افراد کو کسی بھی ملک میں گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا جاسکتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے مزید مثبت پیش رفت کے امکانات ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب دنیا کا کوئی بھی گوشہ ظالموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔
پروینہ آہنگر کی اپنی کہانی سننے کے لیے چیتے کا جگر چاہیے۔ اگست 1990میں ان کے کمسن فرزند جاوید احمد کو حریت پسندوں کا مددگار ہونے کے الزام میں اٹھالیا گیا۔ جاوید احمد کی واپسی کے لیے انہوں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کوئی اتا پتا نہ چلا۔ پروینہ نے اپنے دکھ اور درد کو ان سیکڑوں ماؤں کا درد بنایا جن کے لخت جگر حراست میں گمشدہ قرار دیئے گئے۔ اے پی ڈی پی کے نام سے گمشدہ بچوں کے والدین کی ایک تنظیم بھی بنائی جو ہر ماہ سری نگر میں کیمپ لگاتی اور دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے۔ یہ ادارہ اقوامِ متحدہ سے ملنے والی محدود سے مالی امداد کے علاوہ وسائل جمع نہیں کرتا۔ گمشدہ افراد کی تعداد آٹھ سے دس ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان میں کئی عورتیں عالمِ شباب ہی میں بیوہ ہوئیں اور دوسری شادی کرنے کی انہیں اجازت نہیں۔ انہیں Half Widow یعنی آدھی بیوہ کہا جاتاہے۔
پروینہ اور خرم پرویز کی لیڈرشپ میں بے نام قبروں کے معاملے کو بھی مسلسل اجاگر کیا گیا۔ پاکستان میں بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ پونچھ اور راجوری کے علاقوں میں درجنوں نہیں سیکڑوں ایسی گمنام قبروں کا انکشاف ہوا ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ پروینہ کا خیال ہے کہ ان قبروں میں دورانِ حراست ہلاک کیے نوجوانوں کو دفن کیا گیا ہے۔ بے نام قبروں اور لاپتا افراد کا معاملہ کلنک کا ایسا ٹیکہ ہے جو بھارت کے سیاستدانوں اور دانشوروں کا دنیا بھر میں تعاقب کرتاہے۔
کشمیریوں نے اپنی کہانی دنیا کو سنانا شروع کر دیا ہے۔گذشتہ عشرے میں کئی ایک بین الاقوامی شہرت پانے والے ناول لکھے گئے۔ دستاویزی فلمیں بنائی گئیں اور مقامی زبانوں میں مزاحمتی شاعری بھی کی گئی۔کیا یہ ایک غیر معمولی بات نہیں کہ 2005ء میں پروینہ آہنگر کا نام نوبل امن انعام کی ایک ہزار نامزد خواتین کی لسٹ میں شامل کیاگیا۔ کیا یہ کم ہے کہ نیویارک ٹائمز اور گارڈین جیسے اخبار کشمیری صحافیوں اور ادیبوں کی تحریروں کو ادارتی صفحے پرجگہ دیتے ہیں۔حال ہی میں ارون دھتی رائے کے ناول ’’منسٹری آف اَٹ موسٹ ہیپی نیس‘‘ کو بکر پرائز ملا ۔اس ناول کا مرکز ی خیال کشمیر ہی ہے۔ چند ہفتے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان اسّی افراد کی تصویروں سمیت داستان شائع کی جنہیں گذشتہ سال پلٹ گن کے ذریعے اندھا کیا گیا۔ امید کی جاتی ہے کہ اب دنیا کشمیر کے بھولے بسرے تنازعہ کو اسی طرح اہمیت دیتی رہے گی اور اس کے دیرپاحل کی کوشش بھی کرے گی۔
……………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔