ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟

اس وقت ہمارا معاشرہ ہر لحاظ سے بٹا ہوا اور تقسیم شدہ ہے۔ دولت کی تقسیم کی بنیاد پر ایک طبقہ غربت و افلاس میں مبتلا ہے، تو دوسرا طبقہ کثرتِ دولت سے، عیشِ فراواں سے مستفید ہو رہا ہے۔ دین و مذہب تو آفاقی اور عالمی سطح پر انسانیت کو جوڑنے، یکجا کرنے اور ایک عالمگیر امت بنانے کا ذریعہ ہے لیکن ہمارے ہاں دین و مذہب کے لحاظ سے بھی معاشرہ مختلف فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہے۔ شیعہ سنی کی تفریق، دیو بندی بریلوی کی تفریق، مقلد اور غیر مقلد کی تقسیم۔ غرض یہ کہ مذہبی لحاظ سے بھی ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی ہم مختلف صوبوں، خطوں اور علاقوں میں تقسیم ہیں۔ یہ تقسیم اگر چہ فطری اور قدرتی ہے، لیکن اگر عدل و انصاف اور احسان و مروت کے احساس سے اس علاقائی اور جغرافیائی تقسیم کے منفی پہلوؤں کا علاج نہیں کیا جاتا، تو یہ تقسیم بھی معاشرے اور ملک کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں بن جاتی ہے۔
اس طرح صوبائی اور لسانی تقسیم ہے۔ اس وقت ہم چار صوبوں اور بہت ساری مختلف لسانی طبقوں میں تقسیم ہیں۔ یہ تقسیم بھی اگرچہ قدرتی اور فطری ہے، لیکن اگر چار صوبوں کے درمیان مالی، سیاسی اور انتظامی امور میں عدل و انصاف قائم نہیں کیا جاتا، تو صوبائیت کا فتنہ ملک کی یکجہتی، بقا اور استحکام کے لیے ایک خطرہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مختلف لسانی گروہوں کے لیے مقامی زبان میں تعلیم اور سرکاری حکومتی انتظامی امور مقامی زبان میں انجام دینے کا طریقِ کار طے نہیں کیا جاتا، تو یہ تقسیم بھی ایک بڑا مسئلہ اور زیادہ پھیل کر ایک خطرہ بن جاتا ہے۔ اگر ہم موجودہ حالات اور حقائق کا جائزہ لیں، تو درجہ بالا معاشرتی تقسیم پاکستان کی بقا، استحکام اور ترقی کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس تقسیم در تقسیم کی بنیادی وجوہات کو اگر ہم کھوجنے کی کوشش کریں، تو اس کی بنیاد میں ہمیں دو بنیادی امور کار فر ما نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک قومیت کا نظریہ اور جغرافیائی حدود کے اندر ایک قوم کی عدم تشکیل ہے، لیکن قومیت اور جغرافیائی طور پر ایک قوم تشکیل دینے میں بھی بہت ساری مشکلات و موانعات درپیش ہیں۔ اس لیے کہ ہر لسانی گروپ، زبان اور مقامی ثقافت کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کرتا ہے اور اپنے لیے ہر قسم کی خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جغرافیائی طور پر ایک ملک اور ایک قوم کا تصور پنپنے نہیں پاتااور ایک مرکزی اور قومی ریاست کی تشکیل نہیں ہونے پاتی۔
دوسری قباحت اس میں یہ ہے کہ لسانی اور صوبائی بنیاد پر قومیت کا دعویٰ کرنے والے ہر وقت حقوق و مراعات اور اختیارات کے لیے دست و گریباں رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں دنیا بھر کے تمام خطوں میں دیکھی جا سکتی ہیں کہ کس طرح آئر لینڈ، انگلینڈ سے علیحدہ ہوا اور سکاٹ لینڈ انگلینڈ سے الگ ہونے کے لیے جدو جہد میں مصروف ہے، علی ہٰذا القیاس۔ جغرافیائی قومیت کے علاوہ ایک اور ذریعہ جو اس تقسیم در تقسیم کو باہمی اتحاد و اتفاق اور یک جہتی میں تبدیل کر سکتا ہے، وہ دینِ اسلام کا آفاقی، عالمی اور الوہی نظریہ ہے، جو ایک جغرافیائی خطے میں واقع مختلف صوبائی، لسانی اور ثقافتی اکائیوں کو نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر متحد کر سکتا ہے۔ دینِ اسلام ایک ایسا نظریہ ہے جو انسانوں کو عدل و انصاف، مساوات و رواداری اور بھلائی و احسان کے ذریعے متحد کرتا ہے۔ اسلامی نظریے کی رو سے انسانوں کے درمیان رنگ و نسل علاقے اور خطے اور زبان و لہجے کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی بلکہ اسلام کا نظریہ تو غیر مسلموں کو بھی بنیادی انسانی حقوق کے تحت ہر قسم کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو صورتِ حال ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے 95 فی صد عوام مسلمان ہیں۔ اگرچہ طویل عرصے سے اجتماعی طور مسلمان عوام اسلامی حکومت کی برکتوں اور فوائد سے محروم چلے آرہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ذہنی اور عملی طور اسلام سے دوری اور انحراف موجود ہے، لیکن اگر اس کے لیے حکومتی انتظامی ذرائع بروئے کار لائے جائیں اور تعلیم و تربیت کے ذریعے اسلامی عقائد و اعمال کے فروغ کے لیے ماحول و حالات ساز گار بنائے جائیں، تو موجودہ صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ اسلام کا نظریہ بڑا جان دار، کار فرما اور پُرتاثیر ہے۔ اسلام نے تو پتھروں کو موم کر دیا تھا اور حیوان نما انسانوں کو انسانیت کی معراج تک پہنچایا تھا، لیکن آج چوں کہ اسلام متروک ہے، پسِ پشت ڈالا گیا ہے، منظر سے ہٹا کر اجنبی بنا دیا گیا ہے، اجتماعی معاملات اور حکومتی انتظام سے نکال دیا گیا ہے جس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں افراد کے اندر اسلامی نظریہ اور عقیدہ کمزور اور مضمحل ہو گیا ہے۔
ہماری تاریخی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اوپر جو حادثہ اور سانحہ بھی گزرے،ہم کیسے ہی بڑے بحران سے دوچار ہوں، ہمیں کتنی ہی بڑی تباہی کا سامنا ہو، تو ہم بحیثیتِ امت اس پر سوچ بچار نہیں کرتے، نہ اس کی وجوہات معلوم کرتے ہیں۔ اور نہ ان اسباب کا سراغ لگاتے ہیں جن کی وجہ سے ہم زوال و انحطاط کے اس مرحلے تک پہنچے۔ خلافتِ راشدہ جیسے خیر و برکت کا نظام ملوکیت و بادشاہت اور موروثی طرزِ حکومت میں تبدیلی ہو، ہم نے بحیثیتِ امت اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا، بلکہ ہمارے بڑے بڑے فقہا اور علما ولید بن عبدالملک اور ہارون الرشید کو خلیفہ کہتے اور لکھتے رہے۔ زوال و انحطاط کا یہ سفر جاری رہا۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کا سقوط، جاہ و مال اور عہدہ و منصب کے پجاری نام نہاد مسلم حکمرانوں کی عیش پرستیوں، غفلتوں اور سازشوں کی وجہ سے سقوطِ غرناطہ ہوا اور آٹھ سو سالہ حکومت کے بعد اندلس ہاتھ سے جاتا رہا۔ ایسا وقت بھی اس امت پر آیا کہ پورا عالمِ اسلام غیروں کی غلامی میں گرفتار ہوا اور پورے دو سو سال تک ہم برصغیر میں انگریزوں کے غلام رہے۔ آج جب ہم 72 سال سے اپنے لیے ایک الگ ملک کے حصول میں کامیاب رہے، دو سو سالہ غلامی کے نتیجے میں ہمارے اوپر وہ طبقہ مسلط ہے جوانگریزوں کا پروردہ او ر تربیت یافتہ ہے۔ ہمار ا حکمران طبقہ اپنے پرانے آقاؤں کے ذہن سے سوچتا ہے۔ ان کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ ان کی تہذیب و ثقافت اور طرزِ زندگی کو مسلم معاشرے پر مسلط کر دیا ہے۔ 72 سال میں نہ ہم اپنا کوئی سیاسی نظام تشکیل دے سکے اور نہ اپنا نظام تعلیم اپنی قومی و ملی ضروریات کے مطابق بنا سکے۔ آج بھی اس ملک پر وہی نظام مسلط ہے جو انگریز آقا یہاں چھوڑ گئے تھے۔
ہمیں قومی طور پر جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔ ہمارے فیصلے ہمارے دشمن اور بدخواہ بیرونی طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ہمارا ملک بیرونی طاقتوں کے ایجنٹوں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور ہمارے ادارے بھی ان کی ہدایات کے تحت چلتے ہیں۔ ہمارے لیے پالیسیاں بھی وہی بناتے ہیں۔ ملک کے عوام کی اکثریت مسلمان ہے، لیکن بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ ذہنی و فکری طور پر اسلام سے منحرف اور منکر ہیں۔ وہ سیکولرزم، کمیونزم اور سوشلزم کو تو نظریات اور قابلِ عمل سمجھتے ہیں،لیکن اسلام کو بحیثیتِ دین اور نظامِ زندگی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور 72 سال سے مسلم عوام کی اکثریت کے دین و ایمان اور عقیدے و نظریے کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ اگر کبھی کبھار ان کے اقتدار کو عوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے، تو وقتی مصیبت کو ٹالنے کے لیے وہ جمعہ کی چھٹی، شراب اور جوے پر پابندی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قراردینے کے فیصلے کرتے ہیں، لیکن پھر ان پر عمل در آمد نہیں کرتے۔
اسی طرح معیشت کو درست اور تقسیمِ دولت کے لیے منصفانہ انداز اختیار کرنے کے لیے سودی نظام ختم کرنے کا معاملہ جب بھی سامنے آتا ہے۔ تو اس کو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ پندرھویں صدی میں چودہ سو سال پہلے کا فرسودہ نظام نہیں چل سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی طاغوت نے پوری دنیا کو ایک شیطانی نظام میں جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا پر اس کا سیاسی عسکری اور تہذیبی غلبہ ہے۔ اس غالب باطل نظام نے عدل و انصاف اور انسانیت دوستی پر مشتمل دینِ اسلام کو مغلوب کرکے منظر سے پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ پوری دنیا کو صرف معاش اور ضروریاتِ زندگی کے حصول پر لگا دیا ہے۔ حالاں کہ ان غیر اسلامی عدل و انصاف سے عاری طاغوتی نظاموں نے معاش کا مسئلہ بھی اب تک حل نہیں کیا۔ ایک کے بعد ایک نظام ناکام ہوتا جارہا ہے، لیکن ناکامی کے بعد شکاری ایک اور جال اور دام بچھا تا ہے، جو ہم رنگ زمین ہوتا ہے۔ اس طرح یہ تلبیس ابلیس جاری ہے۔معلوم نہیں کہ انسانیت کے فہم و شعور اور عقل و دماغ کا یہ امتحان کب تک جاری رہے گا؟ قرآن عظیم الشان جیسی مکمل ہدایت و رہنمائی کی کتاب اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسوۂ حسنہ جس امت کے پاس موجود ہو اور اس کے باوجود اگر یہ امت موجودہ ابلیسی شیطانی طاغوتی غلبے اور سازشوں کا شکار ہو، تو یقینا قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے جواب دہی مشکل ہوگی۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔