چودہ اگست 1947ء کو ستائیس رمضان المبارک، جمعہ کا مبارک دن تھا۔ یہ تاریخ اور دن مسلمانوں کے مقدس ترین ہیں۔ اس دن کو مسلمانوں کے ایک نئے ملک کا وجود میں آنا قدرت کی طرف ایک زبردست اشارہ تھا۔ اُس وقت مسلمانوں کی اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ انگریزوں اور ہندو اشرافیہ سے اپنی مرضی کے یوم آزادی کو منوالیتے۔ پاکستان اگر نہ بنتا، لیکن بھارت نے ضرور بن جانا تھا۔ کیوں کہ انگریز ہندوستان کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔ اُن کی تقریباً تقریباً پوری دنیا پر حکومت تھی اور غالباً ہندوستان پہلا ملک تھا جس کو وہ چھوڑ رہے تھے، اس لیے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کی کمر توڑ دی تھی۔ وہ اس وسیع دنیا پر مزید حکمرانی کے قابل نہ تھا۔ اُس وقت کے مسلمان مدبروں نے بروقت یہ حقیقت محسوس کی تھی کہ مسلمان چوبیس فی صد اور غیر مسلم 76 فی صد تھے اور دور جمہوریت کا تھا کہ سرکار کے فیصلے اور قوانین ووٹوں کی اکثریت پر ہونے تھے، جن میں مسلمانوں کے عقائد اور مفادات کا خیال رکھنا ممکن نہ ہوتا۔

 تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ انگریزی اقتدار سے پہلے ہندو اور مسلمان مذہب کی بنیادوں پر شاید کبھی نہ لڑے تھے بلکہ پُرامن انداز سے پورے ملک میں زندگی گزار رہے تھے۔ انگریزی اقتدار سے ہندوستانیوں میں مذہبی بنیادوں پر ٹکراؤ شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے مزید نفرتیں پیدا ہوگئیں۔

تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ انگریزی اقتدار سے پہلے ہندو اور مسلمان مذہب کی بنیادوں پر شاید کبھی نہ لڑے تھے بلکہ پُرامن انداز سے پورے ملک میں زندگی گزار رہے تھے۔ انگریزی اقتدار سے ہندوستانیوں میں مذہبی بنیادوں پر ٹکراؤ شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے مزید نفرتیں پیدا ہوگئیں۔

مسلمانوں نے تب تک ہندوستان پر چھے سات سو سالوں تک حکمرانی کی تھی اور اُس زمانے کے اسلوبِ حکمرانی کے مطابق انسانی اور عوامی حقوق کی اتنی پاسداری اور آگہی نہ تھی جتنی کہ آج ہے۔ حاکم حاکم تھے اور محکوم محکوم۔ صدیوں تک مسلمان بالادست اور ہندو زیر دست تھے۔ پھر عام آدمی اگر اعلیٰ تربیت یافتہ نہ ہو، تو نا سمجھی میں غیر ذمہ دارانہ حرکات کرتا رہتا ہے۔ ہندو اپنے عقائد کی رو سے مسلمانوں کو گندہ، ملیچھ اور بد ذات تسلیم کرتے تھے۔ جس طرح وہ ملیچھ لوگوں سے فاصلہ رکھتے ہیں، اسی طرح وہ مسلمانوں سے بھی دور رہا کرتے تھے لیکن مسلمان حکمران اور ہندو رعایا تھے۔ البتہ تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ انگریزی اقتدار سے پہلے ہندو اور مسلمان مذہب کی بنیادوں پر شاید کبھی نہ لڑے تھے بلکہ پُرامن انداز سے پورے ملک میں زندگی گزار رہے تھے۔ انگریزی اقتدار سے ہندوستانیوں میں مذہبی بنیادوں پر ٹکراؤ شروع ہوگیا، جس کی وجہ سے مزید نفرتیں پیدا ہوگئیں۔

یہ ایک قدرتی امر ہے کہ حاکم اور وہ بھی غیر ملکی اور غیر مذہبی کے ساتھ محکوم عوام کی محبت نہیں ہوتی۔ اس طرح لڑائی کے بعد فاتح اور مفتوح دوست نہیں بلکہ دشمن ہوتے ہیں۔ اور فاتح جہاں مفتوحوں سے نفرت کرتا ہے، وہاں وہ اُن کو محروم رکھ کر کمزور اور محکوم رکھنے کا بھی خواہش مند ہوتا ہے۔ اس طرح ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے خاتمے پر مسلمان، ہندوؤں کی نفرت اور انگریزوں کی دشمنی کا شکار ہوگئے تھے۔ ہندوؤں کو مسلمانوں سے سات سو سالوں تک بے شمار شکوے شکایتیں تھیں۔ انگریز مسلمانوں سے خوف محسوس کرتے تھے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ مسلمانوں نے کسی نہ کسی شکل میں انگریزوں سے اقتدار چھیننے کی اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں۔ انگریزوں سے شکست کے بعد مسلمان سرکاری ملازمتوں، اپنی جاگیروں اور اپنی ریاستوں سے محروم ہوگئے تھے۔ ایک طرف وہ ایک مفتوح دشمن قوم تھی اور دوسری طرف وہ جدید تعلیم سے متنفر اقلیت طبقہ تھا، اس لیے انگریز حکومت کی ملازمتوں میں وہ صفر کے برابر تھے۔

ہندو روزِ اول سے کاروباری لوگ تھے جبکہ مسلمان سپاہی اور ملازم ہوا کرتے تھے۔ انگریزوں کے غلبے سے وہ ملازمتوں سے محروم ہوگئے تھے اور تجارت اُن کا پیشہ ہی نہ تھا۔ اس طرح نفرت، دشمنی، غربت اور محرومیت نے ہندوستانی مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا تھا۔

ہندو روزِ اول سے کاروباری لوگ تھے جبکہ مسلمان سپاہی اور ملازم ہوا کرتے تھے۔ انگریزوں کے غلبے سے وہ ملازمتوں سے محروم ہوگئے تھے اور تجارت اُن کا پیشہ ہی نہ تھا۔ اس طرح نفرت، دشمنی، غربت اور محرومیت نے ہندوستانی مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا تھا۔

مغلیہ دور میں مسلمانوں کے لیے عدالتیں الگ ہوا کرتی تھیں جن میں اکثریت ملازمین مسلمان ہوا کرتے تھے۔ انگریزی عدالتوں میں جدید تعلیم سے محرومیت نے اُن کو عدالتی ملازمتوں سے بھی باہر کیا ہوا تھا۔ ہندو روزِ اول سے کاروباری لوگ تھے جبکہ مسلمان سپاہی اور ملازم ہوا کرتے تھے۔ انگریزوں کے غلبے سے وہ ملازمتوں سے محروم ہوگئے تھے اور تجارت اُن کا پیشہ ہی نہ تھا۔ اس طرح نفرت، دشمنی، غربت اور محرومیت نے ہندوستانی مسلمانوں کو دیوار سے لگادیا تھا۔ انگریزوں سے اُن کی نفرت اور عناد قدرتی تھا۔ اُس قوم نے ان سے اقتدار، جاہ و جلال اور عزت چھین لی تھی اور ان کو ہر طرح سے محروم کیا ہوا تھا کہ یہ پھر نہ اُٹھیں۔ اس لیے جب 1906ء میں مسلمانوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت (مسلم لیگ) بنائی، تو اُس کے بنیادی اصول میں ایک یہ تھا کہ وہ انگریز حکومت کے وفادار اور معاون رہیں گے۔

مسلمان غربت، جہالت اور ہر طرح کی محرومیوں کا شکار تھے۔ اس کے علاوہ وہ غیر مسلموں کی طرف سے ہتک، مذاق اور دل شکنیوں کے بھی شکار تھے۔ ہندو اُن کو گندے، ملیچھ تسلیم کرتے تھے اور شدید نفرت کرتے تھے۔ ایسے حالات میں جب نہرو رپورٹ میں مستقبل کی حکومت کے لیے جمہوری نظام کو پسند کیا گیا، تو مسلمانوں نے اپنے لیے خطر محسوس کیا کہ وہ متحدہ ہندوستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محرومیوں اور نفرتوں کا شکار ہوں گے۔ چوں کہ مسلمان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے الگ طرزِ حیات، مذہب، فلسفہ، تاریخ، تہذیب، روایات اور افکار کے مالک تھے۔ اُن میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں، اس لیے مسلمان مفکرین نے ان کو غربت، نفرت اور محرومیت اور غلامی سے نکالنے کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ یہ مذہب نہیں تھا جو مطالبہ پاکستان کا سبب تھا لیکن یہ مسلمانوں کی ہر طرح کی معاشی و معاشرتی اور سیاسی محرومیاں تھیں جن کی وجہ سے وہ الگ ہونا چاہتے تھے۔ اگر اسلام یا اسلامی نظام محرک ہوتے، تو پھر علمائے دیوبند نے کیوں پاکستان کی شدید مخالفت کی؟ جب مسلمانوں کو سات صدیوں تک خود مختار اور طاقتور حکمرانی اور علما کی مسلسل حمایت تھی، تو انہوں نے اسلامی مذہبی حکومت کو کیوں قائم کرنے کی معمولی سی کوشش نہ کی۔؟

پاکستان کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق معاشی اور سیاسی ترقی کریں۔ کسی ’’مولوی ریاست‘‘ کا قیام مقصود نہیں تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان بنتے وقت اس کے مخلص لیڈرز مر گئے تھے یا قریب المرگ تھے، اس لیے اس پر ایسے لوگوں کی حکومتیں بن گئیں جو کسی مشترکہ قومیت، تہذیب اور رسوم و رواج کے حامل نہ تھے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق معاشی اور سیاسی ترقی کریں۔ کسی ’’مولوی ریاست‘‘ کا قیام مقصود نہیں تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان بنتے وقت اس کے مخلص لیڈرز مر گئے تھے یا قریب المرگ تھے، اس لیے اس پر ایسے لوگوں کی حکومتیں بن گئیں جو کسی مشترکہ قومیت، تہذیب اور رسوم و رواج کے حامل نہ تھے۔

ہندوستان میں مسلمانوں پر نماز پڑھنے، روزے رکھنے، زکوٰۃ خیر و خیرات کرنے، داڑھیاں رکھنے، اپنے طریقوں کے مطابق شادی بیاہ اور اموات کی رسومات کرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ پاکستان کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق معاشی اور سیاسی ترقی کریں۔ کسی ’’مولوی ریاست‘‘ کا قیام مقصود نہیں تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان بنتے وقت اس کے مخلص لیڈرز مر گئے تھے یا قریب المرگ تھے، اس لیے اس پر ایسے لوگوں کی حکومتیں بن گئیں جو کسی مشترکہ قومیت، تہذیب اور رسوم و رواج کے حامل نہ تھے۔ لٹے پھٹے، محروم، خوفزدہ اور احساس محرومیت کے شکار ہندوستانی تھے۔ پاکستان کی اپنی اقوام کو اس پر حکمرانی شروع سے نہ مل سکی، نتیجہ وہی ہوا جو سب کے سامنے ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان کا مقصد مذہبی حکومت کا قیام تھا، تو پھر بھارت سے آئے ہوئے یا نکالے گئے حکمرانوں نے یہاں اسلامی مذہبی حکومت قائم کیوں نہ کی؟ روزِ اول سے پارلیمنٹ میں موجود بڑے بڑے علمائے دین نے یا ضیاء الحق جیسی مذہبی شخصیت نے بھی اسلامی حکومت کا کوئی ڈھانچہ پیش نہ کرسکے۔ قصہ مختصر، پاکستان کسی مذہبی ریاست کے قیام کے لیے نہیں بنا تھا، لیکن مسلمانوں کو معاشی اور سماجی بدحالی سے نکالنے اور اُن کو آزاد فضاؤں میں آزادی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے تحت نیکی پر مبنی زندگی گزارنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ قائد اعظم نے صرف ایک سرکاری محکمہ خود بنوایا تھا کہ اس مسلمانوں کے ملک میں اسلامی اصولوں کے تحت زندگی ممکن بنانے کے لیے اسلامی انتظامی نظام، اسلامی معاشی نظام، اسلامی عدالتی نظام اور حقوق غیر مسلمین پر کام کرے۔ معلوم نہیں یہ محکمہ کیوں غائب ہوگیا؟ اسلامی مملکت کی واضح ترین شکل ہمیں گزشتہ تیرہ سو سال میں کہیں نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے قیام کا مقصد کسی مذہبی ریاست کا قیام نہیں تھا بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق جدید ریاست کا قیام تھا۔ اُس میں بھی ہم آج تک ناکام ہی ہیں۔