ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوش رہے، اُسے کبھی غم نہ ہو، کبھی رنج و تکلیف نہ ہو، اگرچہ خوشی و غم، بیماری او رصحت اور وسعت و تنگی زندگی کا حصہ ہیں، لیکن یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ خوش کیسے رہ سکتا ہے!
مشہورِ زمانہ کتاب "Seven Habbits of the most successful People” میں مصنف ایک یہودی قیدی کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ جیل میں کیسے سخت قید و تنہائی کا مقابلہ کرتا ہے۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ Responseability (Response- Ability) کیا چیز ہے؟ یعنی جب کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا ہو، تو آپ میں کتنی قابلیت ہے کہ آپ متوازی اور ضروری ردِ عمل دیں۔
ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اچھے دوست ملیں، اچھی اور نیک سیرت شریکِ حیات ملے، اچھی اور قابل اولاد ملے، اچھی گاڑی ہو، بنگلا ہو اور دولت کی فراوانی ہو۔ لیکن یہ خواہشات ہیں، ارمان ہیں اور ارمان پورے بھی ہوتے ہیں لیکن اگر پورے نہ بھی ہوں، تو بھی زندگی بہت خوبصورت ہے۔
زندگی کے بارے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے رائے دی ہے۔ چشمِ فلک نے بڑے بڑے ارسطو، سقراط، بقراط اور امام غزالی و رومی دیکھے۔ انہوں نے فلسفۂ حیات کو بہت کنگالا ہے۔ ان کی رائے معتبر و جامع ہے۔
اس حوالہ سے ’’مہاتما بدھ‘‘ کی رائے تھی کہ ’’دنیا و ما فیہا سے بے نیاز ہو جائیں، تو زندگی کا اصل مزا آتا ہے۔‘‘
مَیں نے اپنی کم علمی اور ایک ناقص العقل ہونے کے ناتے زندگی کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے جتنا جانا ہے، مجھے ایک ہی حقیقت سامنے آئی ہے کہ زندگی کی دل کشی ’’لمحات‘‘ میں ہے۔ انسان سالہا سال یا مہینے بھر حتی کہ دن بھر خوش نہیں رہ سکتا۔ کوئی نہ کوئی چیز ایسی آجاتی ہے کہ اس کا موڈ آف کر دیتی ہے۔ اس لیے انسان کی اصل خوشی لمحات میں ہے۔ جو انسان لمحات کی قدر و قیمت جان جائے گا، وہ زندگی کی اصل رعنائیوں کو پا سکے گا۔
اگر آپ دیکھیں، تو ہم مسلمانوں میں سب سے بڑی اجتماعی خوشی عیدین کی ہوتی ہے۔ عید کے موقعہ پر بھی سارا دن آپ خوش نہیں رہتے۔ وہ لمحات جو نئے کپڑوں میں ناڑا ڈالنے، نئے کپڑے پہننے اور صبح کے لنچ میں خوشی کا باعث بنتے ہیں، وہ دن بھر نہیں ہوتے۔
سہاگ کی رات جیون ساتھی کے ساتھ زندگی کے ابتدائی لمحے خوبصورت ترین ہوتے ہیں۔
کسی محفل میں چائے کی چند چسکیاں اور گپ شپ کے محدود لمحات یادگار بن جاتے ہیں۔ بعد میں انہی لمحات کو یادوں کی پوٹلی میں باندھ کر احتیاط سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اگلی زندگی میں جب بھی انسان مغموم ہوتا ہے، تو مذکورہ لمحات کو یاد کرکے جی بہلاتا ہے۔
قارئین، میری تو عادت ہے کہ خوشی کا کوئی بھی چھوٹا سا لمحہ کیوں نہ ملے، اسے بہت انجوائے کرتا ہوں۔ بچوں کے ساتھ گذرے لمحے کتنے خوش گوار ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار بچے ایسی شرارت یا حرکت کرجاتے ہیں، جسے ساری زندگی یاد رکھا جاتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، ابھی پچھلے مہینے جب پشاور سے بنوں گیا، تو میری چھوٹی بیٹی جو ایک سال کی ہے اور بول بھی نہیں سکتی، اچانک مجھے دیکھ کے اس کے منھ سے لفظ ’’بابا‘‘ نکلا۔ اس پر سارے گھر والوں نے ماشاء اللہ کہا۔ یوں اس چھوٹے سے لمحے کو ہم نے بہت انجوائے کیا۔
سعودیہ میں جاب کے دوران میں سائٹ پر چھوٹی دکان سے اکثر کولڈ ڈرنک خریدتا اور کچھ دیر ریسٹ شیلٹر میں گذارتا۔ وہ لمحات میری زندگی کے بہترین لمحات تھے، جو گھر اور وطن سے دور ہونے کے باوجود مجھے محظوظ کرتے، اور ایک طرح سے تسکین کا باعث بنتے۔ ابھی پاکستان میں جاب کے دوران میں جب دوستوں کے ساتھ کسی چائے والے کے پاس بیٹھ کر چائے پیتا ہوں، تو یقین مانیے میرے لیے یہ لمحات ایسے ہوتے ہیں جیسے میں قیصر و کسریٰ کا تخت نشین ہوں۔
خوش رہنے کا دوسرا طریقہ جو میں جان گیا ہوں وہ ہے تصورات (Imaginations) جب آپ غمگین ہوتے ہیں، یا مایوس ہوتے ہیں، تو آپ تصورات سے اپنے من کا بوجھ ہلکا کرسکتے ہیں۔
مثلاً آپ عشق میں ناکام ہوگئے ہیں، تو تصور میں آپ یہ نقشہ کھینچ لیں کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ اس جیسی ہزاروں لڑکیاں آپ کے پیچھے ہوں گی۔ بس دل میں پکا یقین کرلیں کہ ایسا ہی ہوگا۔ یقین مانیں، آپ بہت خوش ہوں گے اور مسلسل مشق کرکے آپ اپنے غم اور تکلیف سے نکل جائیں گے۔
اگر کبھی انٹرویو یا کسی نوکری کے حصول میں ناکام ہوگئے ہیں، تو اس نوکری سے کئی گنا بڑے عہدے کا سوچ کر دل کو یقین دلائیں، کہ ویسے بھی جلد میں نے اس عہدے پر بیٹھنا ہے۔ کیوں غمگین رہوں؟
اگر آپ کی پہلی شادی ہو چکی ہے، تو دل میں دوسری اور تیسری کا خیال بٹھائیں، یقین مانیے ہمیشہ خود کو ’’جوان‘‘ محسوس کریں گے۔
مشہورِ زمانہ بالی ووڈ فلم ’’تھری ایڈیٹس‘‘ کا مشہور ڈائیلاگ ’’آل اِز ویل‘‘ سب کو یاد ہوگا۔ اسی بول کے ساتھ فلم میں ایک گانا بھی موجود ہوتا ہے۔ جب بھی عامر خان کو کسی مسئلے کا سامنے ہوتا ہے، تو وہ دل پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: ’’آل از ویل۔‘‘ ایک دفعہ اس کے دوست اعتراض کرتے ہیں کہ کیا ایسا بولنے سے ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ کیا ایسا کرنے سے ہم خود کو بے وقوف نہیں بناتے؟ تو عامر جواب دیتا ہے کہ نہیں اس سے ہمیں وقتی تسکین ملتی ہے۔ جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ غم کی شدت کم ہوتی ہے۔ انسان جب اضطرابی کیفیت سے نکل آتا ہے، تو وہ سوچ بچار کے بعد دوبارہ نئے حوصلے و ہمت سے جینا شروع کر دیتا ہے۔
تصورات اور خیالات سے خوشی پانے کے اس نظریے سے بہت سارے لوگوں کو اختلاف ہے کہ اس طرح سے انسان خوابوں میں جیتا ہے۔ جس کے بعد اس میں کام کرنے کا جذبہ کم ہوتا ہے۔ حالاں کہ ایسی بات نہیں۔ تخیلات سے ہی آپ بڑا سوچتے ہیں، اور بڑا سوچنے سے آپ کی صلاحیتیں بھی جاگ جاتی ہیں۔ سوچ بڑی ہو جاتی ہے، اور انسان عظیم مقصد کی خاطر زیادہ قربانی کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو جاتا ہے۔اس کا اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس وقت مایوسی اور ناامیدی نے اسے گھیرنا ہوتا ہے، اس وقت وہ اطمینان سے کچھ بڑا سوچ رہا ہوتا ہے۔
ہمارے نوجوان کیوں زیادہ پُرجوش اور خوش ہوتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ تخیلاتی زندگی میں رہتے ہیں۔ حقیقت پسندی اپنی جگہ لیکن تخیلات بھی خوش رہنے کا ایک ذریعہ ہے۔
نوٹ:۔ میری فکر سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔