تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ایک دوسرے رہنما انتخابی مہم میں زور و شور سے یہ راگ الاپتے تھے کہ "حکومت ملنے کی دیر ہے۔ پارٹی کی پہلے سے تیار شیڈو کابینہ پاکستان کے تمام مسائل چند مہینوں میں حل کرنے کی استطاعت رکھتی ہے۔” یہ بھی دعویٰ تھا کہ "ہم قومی خزانہ لوٹنے والوں سے لوٹی ہوئی رقم کی ایک ایک پائی وصول کریں گے۔ اس طرح معیشت کی بہتری کے لیے تحریکِ انصاف ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے گی، کوئی نیا ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس کے وصولی نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔” مگر افسوس کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی، تو پتا چلا کہ اس نے معیشت کے استحکام کے لیے کسی قسم کا ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ حالاں کہ تحریکِ انصاف پہلے سے اپنی شیڈو کابینہ میں ماہرینِ معاشیات کا دعویٰ کرتی چلی آ رہی ہے۔
قارئین، وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت کرنا آسان ہے، لیکن معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ فیصلے وزیر اعظم کرچکے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف حکومت نے سال میں دو بار میزانیہ پیش کیا۔ ہر ماہ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہو چکا ہے۔ کاروبار ٹھپ ہونے کی وجہ سے تمام کاروباری حضرات حیران و پریشان ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ آئی ایم ایف نہ جانے کے دعوؤں کے باوجود اس سے بیل آوٹ پیکیج لینے کی خاطر تمام شرائط تسلیم کی گئیں۔ جس میں ٹیکسوں میں اضافہ سمیت تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانا شامل ہے۔
تحریک انصاف سے جو امیدیں لگائی گئی تھیں اور جو خواب عوام کو دکھائے گئے تھے، وہ اب بھیانک تعبیر بن چکے ہیں۔ گذشتہ حکومت نے جب محصولات بڑھانے کی خاطر کالا دھن سفید کرنے کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا، تو تحریک انصاف نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا۔ مذکورہ سکیم پر عمران خان اور اس کے دست راست اسد عمر سخت تنقید کیا کرتے تھے۔ عمران گذشتہ حکومت کی ایمنسٹی سکیم کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: "مَیں اور میری پارٹی ایمنسٹی سکیم کو مسترد کرتے ہیں، جب الیکشن جیتیں گے، تو جس جس نے ایمنسٹی لی ہو، ان سب کی تحقیقات کریں گے۔ جب بار بار ان ڈاکوؤں کو ایمنسٹی سکیم دی جاتی ہے، تو میں ایک سوال پوچھتا ہوں کہ جو لوگ ایمان داری سے ٹیکس دیتے ہیں، وہ تو بے وقوف ہوئے نا۔ پہلے چوری کرو، ٹیکس نہ دو، کرپشن کرو، تھوڑی دیر میں ایک سکیم آجائے گی، یوں آپ کا سارا کالا دھن سفید ہو جائے گا۔ دنیا میں کون ایمنسٹی دیتا ہے اور کتنی ایمنسٹی سکیمیں کامیاب ہوئی ہیں؟ مجھے افسوس ہے کہ رولنگ ایلیٹ اپنے لیے سکیم لاتی ہے، تا کہ ان کے بلیک کا پیسہ وائٹ ہوجائے۔ اس لیے ہم کرپشن کو پروموٹ کرنے کے خلاف ہیں۔”
اسی طرح اسد عمر صاحب فرمایا کرتے تھے: "ایک معاشی شب خون مارا گیا ہے، اگر اگلے وزیر اعظم عمران خان ہوئے، تو یاد رکھیں جو بھی کالا دھن سفید کرنے کی کوشش کرے گا، تو یہ سکیم واپس کی جائے گی، یہ سکیم ایمان دار لوگوں کے منھ پر بالکل چھانٹا مارنے کے برابر ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان میں منی لانڈرنگ کی، کرپشن کی، بھتا خوری کی، سرکار ان کو دعوت دیتی ہے کہ آپ اپنا کالا دھن سفید کریں۔ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا اور آپ کی چوری نہیں پکڑی جائے گی۔ کبھی ایسی ایمنسٹی سکیم نہیں آئی جس میں غریب کا فائدہ ہو، جو فلسفہ ہمیں پڑھایا جاتا ہے اس میں صرف طاقتور کا فائدہ ہوتا ہے۔”
قارئین، مگر اب وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے دوسرے قائدین اپنا تھوکا ہوا خود چاٹنے جا رہے ہیں۔ حکومت نے قومی محصولات بڑھانے کے لیے ماضی کی حکومتوں کی طرح "ایمنسٹی سکیم” کا اعلان کیا ہے، جسے ماضی میں کرپشن کے مال کو قانونی تحفظ دینے سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ اس سکیم کے اجرا کے لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اس کے بارے میں تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ ماضی کی سکیموں سے مختلف ہوگی۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ کیسے مختلف ہوگی؟ آیا اس سکیم میں کرپشن اور لوٹ مار کی دولت کو قانونی تحفظ نہیں دی جائے گی؟ آیا بھتا خوری اور منشیات فروشی سے کمائی ہوئی دولت یا اس جیسے کالے دھن کو سفید نہیں کیا جا سکے گا؟ تحریک انصاف اپنی اس سکیم کو کیسے جائز اور ماضی کی سکیموں سے مختلف بنائے گی؟ کیوں کہ ان کے نزدیک تو یہ سکیمیں کرپشن، چوری، بھتا خوری اور کالے دھن کو سفید کرنے کے طریقے ہیں اور یہ سب کچھ رولنگ کلاس اور طاقتوروں کے لیے لایا جاتا ہے جب کہ غریبوں کو ایسی سکیموں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
تحریک انصاف کے تمام دعوے سارے خواب ایک ایک کرکے چکنا چور ہو رہے ہیں۔ مخالفین تو کیا ان کے اپنے ورکرز سوچ رہے ہیں کہ جو دعوے کیے جا رہے تھے، کیا وہ محض دعوے تھے یا ان پر کوئی عمل درآمد بھی ہوگا؟جب کہ میں سوچ رہا ہوں کہ کہیں یہ ماضیِ قریب میں لی جانے ولی درجن بھر "یوٹرونز” میں ایک اور کا اضافہ تو نہیں؟؟؟
…………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔