استاد کے پیشے کو ہم بحیثیت مسلمان ایک پیغمبری پیشہ مانتے ہیں۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں استاد ہوں، لیکن کیا استاد ہونے کا مطلب بھی ہمیں پتا ہے؟

خاتون کے جواب سے مجھے’’ہوورڈ گارڈنر‘‘ کی ’’تھیوری آف ملٹی پل انٹیلی جنس‘‘ یاد آگئی۔ میں نے خاتون کو سمجھایا کہ جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، ٹھیک اسی طرح سب بچے ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ سب کو اللہ پاک نے الگ الگ صلاحیتیں دی ہیں۔ بچے کی کامیابی میں اسّی فیصد کردار استاد کے بچے پر کامیاب ہونے کے ’’یقین‘‘ کا ہوتا ہے
اس پیغمبری پیشے کو بنیاد بناکر ہم جنت کے طلبگار بنے پھرتے ہیں، لیکن ہم بھول گئے ہیں کہ اس کے فرائض صحیح طریقے سے ادا نہ کرنے پر ہمارا ٹھکانا جہنم بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، ایک ٹریننگ کے دوران میں ’’ہیومن لرننگ اینڈ پرسنالٹی ڈویلپمنٹ‘‘ کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اس موقعہ پر ایک خاتون نے اپنا مدعا سنایا کہ ان کی کلاس میں ایک بچی نہایت نالائق ہے۔ سارے اسکول کے ٹیچرز اسے مارتے ہیں۔ اسے کمزوری کے طعنے دیتے ہیں۔ اس لئے میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے کوئی مشورہ دیں۔ کسی طبیب کی طرح میں نے بھی خاتون سے مذکورہ بچی کے حوالے سے کچھ سوالات پوچھے۔ میں نے بچی کے خاندان اور ذریعۂ آمدن کے حوالہ سے پوچھا۔ حیرانی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ وہ خاتون مجھے کوئی بہتر جواب نہ دے سکی۔ مجھے صرف ایک سوال کا جواب ملا۔ خاتون نے کہا: ’’سر، اُسے میک اَپ کرنا بہت پسند ہے۔ وہ میک اَپ میں بڑی ماہر ہے۔ خاتون کے جواب سے مجھے’’ہوورڈ گارڈنر‘‘ کی ’’تھیوری آف ملٹی پل انٹیلی جنس‘‘ یاد آگئی۔ میں نے خاتون کو سمجھایا کہ جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، ٹھیک اسی طرح سب بچے ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ سب کو اللہ پاک نے الگ الگ صلاحیتیں دی ہیں۔ بچے کی کامیابی میں اسّی فیصد کردار استاد کے بچے پر کامیاب ہونے کے ’’یقین‘‘ کا ہوتا ہے، تو آپ اس بچی کو یقین دلائیں کہ وہ سیکھ سکتی ہے۔ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ہر کام کرسکتی ہے۔ اُسے یہ باور کرانا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے۔ اگر ایک بار اس میں خود اعتمادی پیدا کی جائے، تو اُسے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہرحال ہم نے کافی چیزوں پر بحث کی اور ساتھ ساتھ اس بچی کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی کیں۔ اس بات کو کافی دن گزرگئے تھے۔ اتفاق سے ایک تقریب میں وہی خاتون مجھے دوبارہ ملی۔ میرا خیال تھا کہ ضرور ہماری گذشتہ بحث نے اس بچی کی شخصیت پر مثبت اثر کیا ہوگا لیکن یہ جان کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ اس بچی کو چند روز پہلے صرف اس بات پر گھر بھیج دیا گیا تھاکہ وہ میک اَپ کرکے اسکول آتی تھی۔ اسے ہیئر اسٹائل بنانے کی سزا بھی کیا خوب ملی۔ پوری اسمبلی کے سامنے اس کے بال علامتاً کاٹے گئے، تاکہ باقی بچوں کو بھی اس بات کا احساس ہو کہ ’’بناؤ سنگھار سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔‘‘ اس خاتون نے بتایا کہ واقعہ کے بعد بچی کسی کے ساتھ اسکول میں بات بھی نہیں کرتی تھی۔ سب سے علیحدہ رہتی تھی۔ میرے نزدیک میک اَپ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ کوئی غلط بات نہیں ہے جس پر اتنا واویلا مچایا جائے۔ہر انسان کو خوبصورت دِکھنے کا حق حاصل ہے۔ جس بچی کے ارد گرد کے لوگ بنا کسی وجہ کے اس کے خلاف ہوں، شائد اس کے پاس میک اَپ کرنا ہی ’’سیلف اِنکرجمنٹ‘‘ یعنی خود اعتمادی کا واحد ذریعہ تھا۔

اگر ایک استاد کی حیثیت سے میں اپنے شاگرد کی صلاحیتوں کو نہیں سمجھ سکتا، تو کیا میں اسے اس کی صلاحیتوں کے جرم میں سزا دینے کا حق رکھتا ہوں؟ میں سب کی بات نہیں کرتا، لیکن ہم میں سے کچھ لوگوں کا یہی خیال ہے کہ تعلیم بس اس نصابی کتاب کا نام ہے جو مجھے اسکول میں پڑھانا ہے۔
اگر ایک استاد کی حیثیت سے میں اپنے شاگرد کی صلاحیتوں کو نہیں سمجھ سکتا، تو کیا میں اسے اس کی صلاحیتوں کے جرم میں سزا دینے کا حق رکھتا ہوں؟ میں سب کی بات نہیں کرتا، لیکن ہم میں سے کچھ لوگوں کا یہی خیال ہے کہ تعلیم بس اس نصابی کتاب کا نام ہے جو مجھے اسکول میں پڑھانا ہے۔ ان کو میری التجا ہے کہ خدارا، اپنی سوچ کو بدل دیں۔ مثبت سوچ کے حامل اساتذہ ہی اس قوم کو آگے لے جاسکتے ہیں۔ ورنہ آج یا کل، ہمارے بچے اور پھر ہماری نسلیں یوں ہی گمراہی کا شکار ہوں گی اور آگے چل کر پھر ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ میری درخواست ہے کہ اگر بدلنا ہے، تو بس اپنی سوچ کو بدل دیں۔