مضبوط اور پائیدار عمارت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ بنیاد بھی مضبوط اور پائیدار ہو۔ اسی مثال کے مطابق قوم کی تعمیر، تشکیل، ترقی اور نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ قومی بلڈنگ کی پائیدار اور مستحکم تعمیر کے لیے اس کی بنیاد یعنی نظامِ تعلیم کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اور ان خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کیا جائے جن کی وجہ سے پوری قوم مسائل، مشکلات اور بحران کا شکار ہے۔ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم ہمارے انگریز آقاؤں نے اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے تشکیل دیا تھا۔ اس نظامِ تعلیم سے ان کی واحد غرض و غایت یہ تھی کہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض خطہ زمین پر انگریز اقتدار کے دوام و استحکام کے لیے مقامی کارندے تیار کیے جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انگریزوں نے اس نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی انگریزی زبان بر صغیر کے عوام پر مسلط کی اور انگریزی زبان کے ذریعے اپنی تہذیب و ثقافت اور طرزِ بودوباش کی بنیاد پر مقامی طرزِ زندگی اور تہذیب و ثقافت کو تبدیل کر دیا۔ یہ عجوبہ اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کی ذہنی سطح اپنی ذہنی سطح 70 فیصد کے مقابلے میں 32 فیصد مقرر کی۔ وہ تو کچھ فنی مشکلات کی وجہ سے بعد میں 33فیصد کر دی گئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نامانوس، اجنبی اور مشکل انگریزی زبان رائج کرنے سے واقعی ہندوستانیوں کی ذہنی سطح پست ہوگئی۔ نصاب کو اس طرح تشکیل دیا گیا کہ اس میں سے بنیادی اور اصل علم یعنی انسان کا اپنے خالق، مالک، رازق اور حاکمِ حقیقی کے ساتھ تعلق کو نظر انداز کر دیا گیا اور اسی بنیاد پر شخصیت کی تشکیل کی بنیادی روح نصابِ تعلیم سے نکال دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ نہ تو اس کے نتیجے میں دنیاوی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکا اور نہ دین کی بنیاد پر دیانت و امانت اور خوفِ خدا رکھنے والے افراد ہی تیار ہو سکے۔ بقول اکبر اِلہ آبادی
بی اے کیا نوکر ہوئے پنشن ملی اور مر گئے
1947ء میں برصغیر تقسیم ہوا، ہندو کی عددی اکثریت کا خوف نہ رہا۔ انگریز چلا گیا اور اس کی زور زبر دستی اور بالادستی بھی ختم ہوگئی، لیکن انگریز بالا دستی اور حکمرانی کے دوران میں اس نظامِ تعلیم نے جس ذہن و فکر کی تشکیل کی تھی، جو زہر ذہنوں میں گھول دیا تھا، وہ آج جوں کا توں موجود ہے۔ کیوں کہ وہ طبقہ جو اس نظامِ تعلیم کا پیدا کردہ تھا، جو حقیقی معنوں میں انگریزوں کا ذہنی و فکری غلام تھا۔ اس کی حکمرانی، بالادستی اور ملکی امور و معاملات پر قبضہ اب بھی انگریزی زبان کا مرہونِ منت ہے۔ یہ بالادست طبقہ جو انگریز وفاداروں، موروثی انعام یافتہ جاگیرداروں، نو دولتیے صنعتکاروں ، بیوروکریسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر مشتمل ہے۔ ایک طرف تو اپنے مفادات کیلئے اس نظامِ تعلیم کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں کہ اپنے لیے قائم کردہ خاص تعلیمی اداروں ایچی سن، برن ہال اور دیگر ایسے اداروں کے ذریعے وہ اپنی حکمرانی، بالا دستی اور قبضے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف چوں کہ ان طبقات کے اندر ملک و قوم سے وفاداری، دین و ملت سے تعلق اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے قیامت کے روز جواب دہی کا احساس نہیں اور اس وجہ سے ان میں ہمت و عزیمت اور اہلیت کا فقدان بھی ہے۔ لہٰذا یہ اس بھاری پتھر کو اٹھانے یعنی اس نظامِ تعلیم کو قوم کے امنگوں کے مطابق تبدیل کرنے کی ہمت و جرأت سے عاری ہیں۔
اسی نظامِ تعلیم کے تناظر میں اگر ہم آزاد و خود مختار قوموں کا جائزہ لیں، تو ہمارے سامنے ایسے بہت سے ممالک کے نام آتے ہیں جو اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور قومی نظامِ تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے۔ جاپان ان ملکوں میں نمایاں اور اس لحاظ سے قابلِ تقلید ہے کہ تین سال تک وہ اپنی نئی نسل کو قومی تہذیب و ثقافت، طرزِ بود و باش، ملک و قوم سے وفاداری اور دیانت و امانت اور قانون و ضابطوں کی پاس داری کی تعلیم اپنی زبان میں دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو سائنسی اور ٹیکنکل ترقی جاپان نے کی ہے، وہ دنیا کے لیے ایک نمونہ ہے۔ فرانس، سوئیزرلینڈ، چین اور دنیا کے بیشتر ممالک اپنی قومی زبان میں تعلیم کے ذریعے صنعت یافتہ اور ترقی یافتہ بن چکے ہیں۔
نصاب اور غیر ملکی نا مانوس زبان کے تسلط کے علاوہ ہمارا بنیادی مسئلہ نئی نسل کو پڑھانے والے اساتذہ کا بھی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ سو فیصد درست اور صحیح ہے کہ اگر استاد خود زیورِ علم سے آراستہ، تعلیم و تعلم سے ذاتی تعلق و رجحان رکھنے والا اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا صالح و دین دار مسلمان ہو، تو نصاب کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ استاد کا علم و تقویٰ اور دینی بصیرت نصاب کی خامیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے، لیکن موجود حقیقت یہ ہے کہ پوری قوم اور خاص طور پر اساتذہ کتب بینی اور مطالعہ سے نفور اور کورے ہیں۔ اساتذہ کی اکثریت اخبار تک کا مطالعہ نہیں کرتی۔ رسائل و کتب اور لائبریری کی ممبر شپ اور اپنے مضمون کی تیاری کے لیے مطالعہ تو بہت دور کی بات ہے۔ ڈگری کے حصول کیلئے نصابی کتب کا بھی جس طرح مطالعہ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ امتحانات میں نقل سے لگایا جا سکتا ہے۔
نظامِ تعلیم میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیوں کے لیے ضرروری ہے کہ اس شعبے کے لیے گرانقدر اور خطیر رقوم مختص کی جائے۔ تنخواہوں ، مراعات اور الاونسز کا معیار بڑھایا جائے۔ معاشرہ میں استاد اور معلم کا مرتبہ اتنا بڑھایا جائے کہ ان کو اپنے علاقوں اور مقامات میں آنریری جج اور مجسٹریٹ کا درجہ دیا جائے۔ ان کو معاشرے میں عزت و شرف اور معزز و محترم شخصیت کا درجہ دیا جائے۔ ساتھ ساتھ ان کے لیے کوالیفائنگ ٹیسٹ میں ذہنی، فکری اور علمی استعداد کا معیار سخت اور اونچا رکھا جائے۔ مراعات و اعزازات کے ساتھ ذمہ دار اور جواب دہ بھی بنایا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ امتحانی بورڈز کا موجودہ طریقۂ کار ختم کیا جائے جس میں دس بارہ سالہ تعلیم کے امتحان کے لیے وہ افراد دس سوالوں پر مشتمل پرچے ترتیب دیتے ہیں جو براہِ راست بچوں کے کردار، اخلاق، حاضری اور پڑھنے کی ذہنی و فکری استعداد سے بے خبر اور نا بلد ہوتے ہیں بلکہ ضلعی سطح پر ایک نگران ادارے کے تحت تمام ہائر سیکنڈری سکولوں کے ساتھ مڈل اور پرائمری سکول پر مشتمل ایک خود مختار یونٹ بنایا جائے جو امتحانات سمیت اپنے تمام انتظامی اور تعلیمی امور خود طے کریں۔ پرنسپل کو اتنا با اختیار بنایا جائے کہ وہ خود اپنے لیے قومی سکیل اور شرائط و ضوابط کے مطابق سٹاف کا انتخاب کرے اور اس کو تمام امور و معاملات چلانے کے لیے اختیار اور مکمل تحفظ دیا جائے۔ ایک پاکستانی اور قومی فرد کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی قومی ذمہ داری انجام دینے کیلئے اپنی ذہنی، فکری اور علمی صلاحیت کے مطابق تجاویز و مشورے پیش کریں۔ آگے حکمرانی کے منصب پر براجمان حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
وما علینا الا البلاغ!

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔