تحریر: نیلوفر مروت (لیکچرار اِن انگلش، سوات یونیورسٹی)
جب بھی سولہ دسمبر کا ذکر آتا ہے، تو درد کی ٹیسیں روح کو چیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ بلاشبہ اس دن کی جتنی مذمت کریں ، نا کافی ہے۔ جتنے آنسو بہائیں کم ہیں۔ قیامت اگر یہ نہ تھی، تو اب جیسی بھی ہوگی، آساں ہی ہو گی۔ کیوں کہ ہم نے قیامت سے پہلے قیامت دیکھ لی ناں۔ ان معصوم پھولوں کی تصویروں کے ساتھ طرح طرح کے ’’ایڈجیکٹیوز‘‘ دیکھ کر سچ بات ہے کہ مجھے عجیب سی گھٹن محسوس ہوتی ہے ۔ میری اس گھٹن کی وجہ سے شاید ہی آپ اتفاق کریں۔ مَیں مثال دے کر اس گھٹن کو واضح کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ حال ہی میں ایک جملہ نظر سے گزرا جو کہ کچھ یوں ہے :’’تم نے بہادری کی مثال قائم کرکے اپنے خون سے وطن کی لاج رکھ لی۔‘‘
بھئی، کیوں یہ جملہ مجھے بے چین نہ کرے؟ کیا ماؤں نے یہ بچے قربانی اور بہادری کی مثالیں قائم کرنے بھیجے تھے یا سکول پڑھنے کے لیے بھیجے تھے؟ کیا صبح سویرے دسمبر کی اس غضب کی سردی میں باپ انگلی تھامے اپنے بچے کو قربان گاہ چھوڑنے گیا تھا؟ کیا بھائی اپنے بہن بھائیوں کو کلاس روم میں ذبح کیے جانے کے لیے لایا تھا یا انھیں چھوڑ کہ خود خوشی خوشی قربان ہونے چلا تھا؟
خون میں نہلا دیے جانے والے یہ ماؤں کے جگر گوشے آنکھوں میں روشن مستقبل کی چمک لیے سکول گئے تھے ۔ کسی کو ٹیسٹ کی ٹینشن تھی، کسی کو بریک ٹائم میں کھیلے جانے والی گیم میں جیتنے کی جلدی تھی، کسی کو کل کی جانے والی شرارت کی سزا سے بچنے کے بہانوں کی تلاش تھی اورکسی نے تین دن پورے ہونے سے پہلے اپنے ناراض دوست سے صلح کرنی تھی۔
بھئی، کہاں کی بہادری اور کیسی ’’فورسڈ شہادت‘‘ کی یہ مبارک بادیں! کسی ماں نہ کسی باپ نے شہید ہونے کے لیے سکول نہیں بھیجا تھا اپنا لختِ جگر۔ اس ’’ڈسکورس‘‘ کا حصہ ان معصوموں کو نہ بنائیں۔ حکومتِ وقت کے ذمہ سالوں پہلے بھی اس گھناؤنے واقعہ کی تفتیش تھی اور آج بھی ہمارے اَن گنت سوالوں کے جواب انہیں سے ہمیں چاہئیں کہ کیسے دن دہاڑے یوں بچے خاک و خون میں نہلائے گئے۔ محض چند چہروں کو تختۂ دار پر لٹکار کر معصوم بچوں کی تصویروں کے ساتھ ’’شہید‘‘ کا لاحقہ لگا دینے سے کھیل ختم نہیں ہوتا۔ مناسب اور شفاف کارروائی کے ہم کل بھی منتظر تھے اور آج بھی منتظر ہیں۔
شائد کہ نئے پاکستان میں ہی انصاف مل سکے۔ کیوں کہ نئے خیبر پختون خواہ میں تو انصاف ناپید ہی رہا۔

………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔