مندر، مسجد، گائے اور مورتی کے نام پر فرقہ وارانہ سیاست کرنے والی بھارتی انتہا پسند جماعت ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ ( بی جے پی) کو ریاستی الیکشن میں عبرت ناک شکست کا سامنا ہوا ہے۔ گذشتہ دنوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات ہوئے۔ مدھیہ پریش، راجستھان، چھتیس گڑھ بی جے پی، شیوسینا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور جن سنگھ جیسی بدنام زمانہ مسلم دشمن جماعتوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ تلنگانہ میں ’’تلنگانہ راشٹریہ سمیتی‘‘ اور میزو رام میں ’’میزو رام نیشنل فرنٹ‘‘ کی بھرپور کامیابی نے بظاہربھارتی سیاسی صورتحال کے نئے رُخ کی نوید دی ہے۔
گذشتہ ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014ء میں راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں واضح بڑی کامیابیاں حاصل کی تھیں، لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔
راجستھان میں ریاستی انتخابات کے دوران میں بی جے پی کی سیاست اکھڑ گئی اور 199 نشستوں کے ایوان میں کانگریس نے واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کرلی۔ کانگریس نے 100 جب کہ بی جے پی 74 نشستیں حاصل کرسکی۔ یہ مودی سرکار کے لیے غیر متوقع جھٹکا ثابت ہوا ہے۔
چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو اس وقت دوسرا بڑا سیاسی جھٹکا لگا، جب خلافِ توقع حکمراں جماعت90 میں سے صرف11 سیٹوں پر کامیاب ہوئی اور کانگریس نے 69 نشستیں حاصل کیں۔ یوں کانگریس، مودی سرکار کو سکتے میں ڈال دیا۔
تلنگانہ ریاست میں مقامی جماعت ’’تلنگانہ راشٹرز سمیتھی‘‘ نے199 میں سے 85 نشستیں لے کر سبقت حاصل کی۔ کانگریس نے 23 جب کہ آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین نے 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار کی دوڑ سے باہرکر دیا۔ اس ریاست میں کانگریس کے ساتھ تلنگانہ راشٹرز سمیتھی اتحادی حکومت بنانے جا رہی ہے۔
میزورم ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن یہاں بھی تبدیلی کی زبردست ہوا چلی اور مقامی جماعت ’’میزو نیشنل فرنٹ‘‘ نے 40 میں سے 25 نشستیں جیت لیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی ۔ اس طرح کانگریس نے6 نشستیں حاصل کیں۔
مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے نتائج نے بی جے پی کی 15 سالہ انتہا پسندی کی حکمرانی کی سیاست کا خاتمہ کردیا۔ یہ ہی نہیں راجھستان میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کانگریس تین ریاستوں میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے اور کانگریس کے سیاسی اعتماد میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔
بھارت کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سنیئر تجزیہ کار سیاست دانوں کے مطابق 2019ء کے انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے میں کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کانٹے کا مقابلہ ہونے کے امکانات کافی نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ انتہا پسند جماعت نے بھارتی عوام کو منقسم کرنے اور مذہب کے نام پر سیاست کا ایجنڈا اپنایا اور انڈیا میں انتہا پسندی کی سوچ کو پروان چڑھایا۔ گوکہ بعض تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ قومی انتخابات میں ریاستی الیکشن اثر انداز ہونے کے امکانات کم ہیں۔ کیوں کہ قومی انتخابات میں مقامی ایشوز پر سیاست نہیں کی جاتی، لیکن اس وقت متعدد بھارتی اخبارات اپنے اداریوں اور تجزیوں میں ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی ناکامی کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب فرقہ وارانہ سیاست کو قرار دے رہے ہیں۔ ریاستی انتخابات میں بی جے پی چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں پندرہ اور راجستھان میں پانچ برسوں سے حکومت کر رہی تھی۔
بھارتی ریاست میں جہاں مودی سرکار کی فرقہ وارانہ پالیسوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تو دوسری جانب نوٹ بندی، کسانوں کی بڑی تعداد میں خودکشیاں، نوجوانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے حل نہ کرنا، نس بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے بی جے پی کو بڑا سیاسی جھٹکا دیا ہے۔ نریندر مودی کے بڑے بڑے وعدے، بطورِ خاص زیادہ ملازمت کی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی میں اضافے کا نہ ہونا بھی شکست کے اہم اسباب میں شامل ہے کہ عوام سے کئے جانے والے بڑے بڑے وعدے جب پورے نہیں کیے جاتے، تو بھارت کا ’’نجات دہندہ‘‘ کہلانے والا بھی شکست کھا سکتا ہے۔
رافیل کرپشن کیس، ملازمت کی کمی اور کسانوں کی پریشانی آئندہ سال کے انتخابات کے لیے بھی اہم ایشوز قرار دیے جا رہے ہیں۔ یہ ہرگز مقامی مسائل نہیں قرار دیے جاسکتے ۔مودی سرکار بھارت کے غریب عوام کے مسائل کے حل سے زیادہ اس بات پر زیادہ توجہ دیتی چلی آ رہی رہی ہے کہ بھارتیوں کو مسلمانوں اور بالخصوص پاکستان کے خلاف کس قدر بھڑکایا جاسکتا ہے؟ اپنے زہریلے طرزِ عمل کی وجہ سے بھارت کی عوام مودی سرکار سے بے زار نظر آتی ہے، جس کا مظاہرہ انہوں نے بی جے پی کے مضبوط گڑھوں میں مخالف ووٹ دے کر کیا۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے موجودہ پنچائتی (بلدیاتی) الیکشن میں بھی مودی سرکار فوجی جبر ا ور کنٹرول کے باوجود ووٹنگ کا تناسب بمشکل 18 تا 23 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ بھارت میں اگلے برس قومی انتخابات کا مرحلہ ہے اور اس ضمن میں مودی سرکار کی ساری توجہ پاکستان مخالف بیانات اور ہرزہ سرائی پر مرکوز ہے۔ خطے میں بدامنی کی فضا بنائے رکھنا اور اقلیتوں کے خلاف جانب دارانہ طرزِ عمل نے مودی سرکار کے اصل چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارتی سیاسی جماعتوں کو نفرت کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی بجائے ان کی تکالیف کو دور کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دنیا کی آبادی پر عالمی بینک کی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے 1 ارب 14 کروڑ یعنی 86 فیصد افراد کی اوسط آمدنی یومیہ ساڑھے پانچ ڈالر یعنی 325 روپے سے بھی کم ہے اور 68 فیصد عوام غربت کی کم ترین سطح پر ہیں۔
’’گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی‘‘ کے مطابق بھارت میں 58 ملین سے زیادہ یا 4.5 فیصدافراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ڈپریشن بھارت میں موت کے منھ میں جلد چلے جانے کی دسویں سب سے بڑی وجہ رہی، جب کہ 2005ء میں یہ بارہویں نمبر پر تھی۔ ڈپریشن کا مرض بھارتی مردوں (3.6 فیصد) کے مقابلے میں عورتوں(5.1 فیصد) میں زیادہ عام ہے۔ یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ 15 تا 19 برس کی عمر والے گروپ کے افراد میں ڈپریشن اور دیگر دماغی بیماریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
بھارت میں ’’مینٹل ہیلتھ کیئر‘‘ پر صحت بجٹ کا صرف 0.06 فی صد ہی خرچ کیا جاتا ہے جو بنگلہ دیش (0.44 فی صد) سے بھی کم ہے۔ وفاقی بجٹ میں 7.81 فی صد اضافے کے ساتھ 295511 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
قارئین کرام! مقامِ افسوس ہے کہ اتنے مسائل کے باوجود بھارت نے اپنے جنگی جنون کے سبب دفاعی بجٹ میں مجموعی طور پر 30 کھرب روپے کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ ہے ایشیا کے تھانیدار کی اصل کہانی۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔