گذشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا وزیراعظم ہاؤس میں سینئر اینکرز کے ساتھ تفصیلی انٹرویو نشر ہوا۔ عمران خان میں ہزاروں خامیاں ہوسکتی ہیں اور بطورِ وزیرِاعظم تو بہت ساری ہوں گی۔ لگ ایسا رہا ہے کہ مستقبل قریب میں ان کمزوریوں میں اور بھی نکھار آسکتا ہے۔ اس انٹرویو کو لے کر سوشل میڈیا میں بہت ہی زبردست تبصرے دیکھنے کو ملے۔
اس انٹرویو کے بعد ہمیں چند حقائق کو تسلیم کرنا پڑے گا اور ان تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے بعد ہمیں ایک انتہائی ضروری اور اہم نکتے کو مجبوراً پلے باندھنا ہوگا۔ کیوں کہ ہم تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں، جہاں سے پیچھے مڑ کر جانا ناممکن ہے اور آگے بغیر منصوبہ بندی کے تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے میں ہمیں لازمی طور پر مضبوط منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، چاہے ہم ملائشیا ماڈل کو کیس سٹڈی بنالیں یا چین اور سعودی عرب ماڈل کو۔
یہ بات بجا طور پر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گی کہ یا تو خان صاحب کی ٹیم ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی، یا وہ سب کے سب ناتجربہ کار ہیں۔ اوراگر ایسا نہیں، تو خان صاحب خود اس اہم منصب کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور اس بات کا پتا اس کے اچانک اور براہِ راست اعلانات سے چلتا ہے۔
ہم یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں کابینہ میں جس ردّوبدل کا عندیہ خان صاحب نے دیا ہے، اس کی وجہ سے ملکی سیاست اور حالات میں زبردست سنسنی خیزی دیکھنے کو ملے گی۔
ہم چلو ایک سینئر اینکر کے وہ چار انکشافات بھی مان لیتے ہیں جو انہوں نے اپنے پروگرام میں کیے اور جن کا لب لباب یہ تھا کہ خان صاحب ایک انتہائی غیر سنجیدہ، عام فہم اور سست روی کا شکار وزیرِ اعظم ہیں۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ خان صاحب بار بار کرپشن کی بات کرکے بزنس کمیونٹی کو وہ تحفظ نہیں دے پارہے جو اگر دیا جائے، تو اس ملک میں سرمایہ کاری کو مزید فروغ مل جائے گا۔ ہم سب کچھ تسلیم کرتے کرتے اگر یہ بھی تسلیم کرلیں کہ خان صاحب ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا مہرہ ہے اور اس بات کا اس نے اشارہ دے کر شائد غلطی بھی کی کہ فوج میرے ہر فیصلے میں مجھے سپورٹ کرتی ہے اور میرا کوئی بھی فیصلہ ان کے بغیر نہیں ہوتا۔
ہم یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ خان صاحب کبھی کبھار وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود وہی اپوزیشن والا رویہ اپنا کر کچھ اچھا نہیں کر رہے۔ ہم میڈیا اینکرز کی یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو لکھی گئی چِٹھی اس کی ایک سفارتی کاوش تھی اور کچھ نہیں تھی، لیکن پاکستان تحریک انصاف اور خان صاحب اس کو کچھ اور رنگ دے کر بلا وجہ خود کو سپر پاؤر ظاہر کرنے کی کوشش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کی کہی ہوئی باتوں سے سٹاک مارکیٹ کے اتارچڑھاؤ سے ملکی معیشت پر برے اثرات پڑتے ہیں۔
ہم یہ بھی تسلیم کرلیتے ہیں کہ ڈالر کی اونچی اُڑان ( جس کی بقول خان صاحب کے ان کو ٹی وی کے ذریعے پتا چلا) سے غریب پر روز بم گرتے ہیں اور خان صاحب صرف یہ کہہ کر کہ’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘ جان چھڑا کر ایک بہترین لیڈر کی طرح ذمہ داریاں نہیں نبھارہے ۔ ہم یہاں چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کا پورا کریڈٹ پاکستان فوج کو جاتا ہے اور اس میں خان صاحب کا کوئی حصہ نہیں۔ ہم یہ ساری باتیں تسلیم کرکے ایک اہم نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ خان صاحب میں کوئی اہلیت نہیں، وہ اور اس کی پوری ٹیم بس ہم سب کا وقت ضائع کر رہی ہے، خان صاحب کو ہم پر زبردستی مسلط کیا گیا ہے اور اگر اسی طرح وہ وزیرِ اعظم رہے، تو ملک کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ ان ساری باتوں کو تسلیم کرنے کے بعد ہم خان صاحب اور اس کی ٹیم کو پاکستان کے لیے لازمی طور پر ایک عذاب سمجھیں گے۔
ہم جو کہتے ہیں، جو کرتے ہیں ان سب کا پاکستان پر یا تو اچھا اثر پڑ رہا ہے اور یا برا۔ یہ ساری باتیں اور حقائق من و عن تسلیم کرنے کے بعد ہمارا ذی شعور طبقہ اور میڈیا پاکستان کے غریب اور مفلوک الحال طبقے کو کبھی یہ نہیں بتاتا کہ خان صاحب پاکستان کے تاریخ کے وہ واحد وزیر اعظم ہیں جو خود پاکستان کے فتین اینکرز کو بلا کر کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں کہ بٹھاؤ مجھے میرے پاکستانیوں کے سامنے اور جو آپ نے پوچھنا ہے، کھل کر پوچھ لو ۔ کیا یہ سارا کریڈٹ خان صاحب کو نہیں جاتا کہ خان صاحب خود میڈیا کے سامنے ببانگ دہل اپنی غلطیاں تسلیم کرلیتے ہیں اور آگے سے ایسا نہیں ہوگا کہہ کر معذرت بھی کرلیتے ہیں؟
کیا ہم نے پہلے کبھی کسی حکمران کو پورے ملک کے سامنے کوئی غلطی تسلیم کرتے سنا ہے؟ وہ خود مانتے ہیں کہ مجھے ڈالر کی اڑان کا پتا ٹی وی سے چلا اور اسی وجہ سے ہوا کہ ہم اوراداروں کی طرح سٹیٹ بنک کو بااختیاربنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سامنے بیٹھا اینکر اس کو کہتا ہے کہ نہیں خان صاحب سٹیٹ بنک اتنا اٹانومس نہیں ہے، جتنا آپ سمجھ رہے ہیں اور حکمران وقت کہتا ہے، جی بالکل آپ کی بات ٹھیک ہے، آگے سے ایسا نہیں ہوگا۔ کیا ہمیں یہاں پر خان صاحب کو یہ کریڈٹ نہیں دینا چاہیے کہ خان صاحب غلطیاں کرتے ہیں کہ غلطیاں انسانوں ہی سے ہوتی ہیں اور پھر ان غلطیوں کو مان بھی لیتے ہیں۔ کیا اس سے پہلے کسی وزیراعظم نے سو دنوں میں ملک کے میڈیا اور عوام کو اعتماد میں لیا ہے ؟
سو دن چھوڑیئے، کیا ہم نے کبھی ان کو پانچ سالوں کا حساب دیتے سنا اور دیکھا ہے؟ سو دنوں میں یقینا ستر برسوں کے حالات نہیں بدلتے، لیکن یہ ثابت کرنا کہ ہم لگے ہوئے ہیں چیزوں کو ٹھیک کرنے میں، کیا کسی اور نے پہلے کیا ہے؟ وہ خود کہتے ہیں کہ اداروں میں بہت مسائل ہیں اور میں اتنی محنت میں لگا ہوا ہوں کہ ایک سو چار دنوں میں صرف ایک دن چھٹی کی ہے۔ وہ بار بار عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے منتیں کر رہا ہے کہ ان شاء اللہ میں اپنے پاکستان کو ان تمام مسائل سے آزاد کرکے ہی دم لوں گا لیکن سب مذاق اڑانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہمیں خان صاحب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ کیوں کہ ہمارے پاس اس وقت کوئی بہتر آپشن نہیں۔ ہمیں بحیثیتِ قوم اس کو وقت دینا ہوگا، کیوں کہ اس کی ’’باڈی لینگویج‘‘ دیکھ کر لگ بھی ایسا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ یہ سارے کریڈٹس بے شک ہم ان سے چھین لیں، لیکن یہ ایک کریڈٹ ان کو ہمیں ضرور دینا پڑے گا کہ خان صاحب خود سچے ہیں اور اسی سچائی کی وجہ سے اس کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستانی قوم کے سامنے جواب دہی کے لیے موجود رہے، ورنہ اس سے پہلے جو اس تخت پر بیٹھے تھے، ان کی تو کہانیاں بھی شائد سونے کے حروف سے لکھی جائیں۔
ہمیں خان صاحب کو داد بھی دینا پڑے گی اور تسلیم بھی کرنا پڑے گا، کیوں کہ اپنے لیے نہ سہی لیکن پاکستان کے لیے وہ خود کو بے تحاشا تھکا رہا ہے۔

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔