اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے، تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو، تو اس کو قرض دینا مستحب ہے۔ کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دنیاوی فائدہ کے لیے کوئی شرط نہ لگائے۔ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ، آیت 282 میں بیان کیے ہیں۔ یہ آیت قرآنِ کریم کی سب سے لمبی آیت ہے۔ اس آیت میں قرض کے احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ ان احکام میں سے تین اہم حکم حسب ذیل ہیں
ایک یہ کہ اگر کسی شخص کو قرض دیا جائے، تو اس کو تحریری شکل میں لایاجائے۔ خواہ قرض کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا، قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کرلی جائے۔ تیسرا، دو گواہ بھی طے کرلئے جائیں۔
قرض لینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ اجرِعظیم عطا فرمائے گا، لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود کوتاہی کرتے ہیں، ان کے لیے نبی اکرمؐ کے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ حتی کہ آپؐایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے منع فرما دیتے تھے جس پر قرض ہو، یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔ ان احادیث میں سے بعض احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کی وجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔ (ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)
رسولؐ اللہ نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیاہے۔ اگر تم چاہو، تو اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف جانے دو، اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کرکے) عذاب سے بچالو۔ (رواہ الحاکم، صحیح علی شرط الشیخین، الترغیب والترہیب)
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ (مسلم)
قرض کی ادائیگی پر قدرت حاصل کرنے کے لیے حضورؐ کی تعلیمات:۔ ایک روز آپؐ مسجد میں تشریف لائے، تو حضرت ابوامامہؓ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپؐ نے حضرت ابوامامہؓ سے پوچھا کہ نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں موجود ہونے کی کیا وجہ ہے؟ حضرت ابوامامہؓ نے کہاکہ غم اور قرضوں نے گھیر رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں ایک دعا نہیں سکھائی کہ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تیرے غموں کو دور کرے گا، اور تمہارے قرضوں کی ادائیگی کے انتظام فرمائے گا؟ حضرت ابوامامہ ؓ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے فرمایا: اے ابوامامہؓ ! اس دعا کو صبح وشام پڑھا کرو۔ وہ دعا یہ ہے: اَللّٰہُمَّ اِنی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّےْنِ وَقَہْرِ الرِّجَالِ۔ حضرت ابوامامہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دعا کا اہتمام کیا، تواللہ تعالیٰ نے میرے سارے غم دور کردیے اور تمام قرض ادا ہوگئے۔ (ابوداود۔ مسلم شریف کی مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے اپنی کتاب الاذکار میں بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے)
قرآن وحدیث میں محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب:۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: وَافْعَلُوا الْخَےْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (سورہ الحج ۷۷) بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔اسی طرح فرمان الٰہی ہے: تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ (سورۃ المائدہ ۲) اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لیے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے، جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم)
نوٹ:۔ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے، تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ ایسا کرنا نبی اکرمؐ کے عمل سے ثابت ہے، لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ ہمیں بینک سے قرض لینے سے بچنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کی ادائیگی سود کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور سود لینا یا دینا حرام ہے۔
وقت پر قرض کی ادائیگی کے اہتمام سے متعلق بخاری شریف میں مذکور ایک واقعہ:۔ حضور اکرمؐ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا تذکرہ فرمایا جس نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لاؤ جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ گواہ کی حیثیت سے تو بس اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن (گارنٹی دینے والا) لے آؤ۔ قرض مانگنے والے نے کہا کہ ضامن کی حیثیت سے بھی بس اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔ قرض دینے والے نے کہا تم نے سچی بات کہی اور وہ اللہ تعالیٰ کی گواہی اور ضمانت پر تیار ہوگیا۔ چناں چہ ایک متعین مدت کے لیے انہیں قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی سفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری (کشتی وغیرہ) کی تلاش کی، تاکہ اس سے دریا پارکرکے اس متعینہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکیں جو اُن سے طے ہوئی تھی، اور اُن کا قرض ادا کر دیں،لیکن کوئی سواری نہیں ملی، (جب کوئی چارہ نہیں رہا تو) انہوں نے ایک لکڑی لی اور اس میں ایک سوراخ بنایا، پھر ایک ہزار دینار اور ایک خط (اس مضمون کا کہ) ان کی طرف سے قرض دینے والی کی طرف (یہ دینار بھیجے جارہے ہیں) رکھ دیا اور اس کا منھ بند کردیا اور اسے دریا پر لے کر آئے، پھر کہا، اے اللہ! تو خوب جانتا ہے۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا، اسی تلاش میں (بندرگاہ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو، لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی، وہی جس میں مال تھا جو قرض لینے والے نے ان کے نام بھیجا تھا، انہوں نے وہ لکڑی اپنے گھر کے ایندھن کے لیے لے لی، پھر جب اسے چیرا تو اس میں سے دینار نکلے اور ایک خط بھی۔
……………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔