جمال خاشقجی قتل، اصل قصہ کیا ہے؟

آج کی نشست میں تھوڑا سا سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی حکومت پر پڑنے والے دباؤ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سعودی حکومت پر تنقید کے حوالے سے مقتول صحافی کے قتل کا اب باقاعدہ سعودی حکومت نے اعتراف کرلیا ہے اور سرکاری طور پر اس اعتراف کے بعد مبینہ ذمہ داران کے خلاف کارروائیاں اور گرفتاری بھی کی گئیں اور وزیرِ خارجہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خا شقجی کے قتل کو غلط اور پھر قتل کے جرم کو چھپانے کو غلطی تسلیم کیا گیا۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے کہ مملکت، جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے جامع تحقیقات کرنے پر کار بند ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ واقعے کے ذمّہ دار تمام افراد کو حراست میں لیا جائے گا۔ انڈونیشیا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الجبیر نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے ضروری اقدامات کیے جائیں گے، تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔
اس سے قبل سعودی وزیر داخلہ نے اتوار کے روز امریکی چینل ’’فوکس نیوز‘‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’جمال خاشقجی کی موت کا واقعہ ایک سنگین غلطی کا نتیجہ تھا اور اس کیس میں ملوث ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے گا۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز جمال خاشقجی کے قاتلوں کے احتساب کے لیے پُرعزم ہیں، جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے، انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
الجبیر نے واضح کیا کہ ’’سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ابتدا میں خاشقجی کیس سے آگاہ ہی نہیں تھے۔ اس واقعے میں ملوث افراد میں سے کسی کے بھی ولی عہد سے کوئی قریبی تعلقات نہیں تھے اور نہ ان میں ولی عہد کے قریبی کوئی لوگ شامل تھے۔ یہ ایک آپریشن تھا اور روگ آپریشن تھا۔‘‘ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس واقعے کی شدید مذمت کرچکے ہیں۔
سعودی صحافی کا قتل درحقیقت ایک افسوس ناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ جمال خاشقجی صحافت میں ایک جانب جہاں بڑا مقام رکھتے تھے، تو دوسری جانب ان کے ماضی میں شاہی خاندان سمیت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات بھی تھے۔ جمال، اسامہ بن لادن کا کئی مرتبہ انٹرویو بھی لے چکے ہیں۔ انہوں نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی تھی۔ اب ان کے بیٹے بھی سعودی عرب سے امریکہ چلے گئے ہیں۔ امریکہ نے اولاً تو ان کے قتل پر بڑھ چڑھ کر سخت بیانات دینا شروع کیے اور پھر عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کے بائیکاٹ سمیت سعودیہ کو سزا دینے جیسے سخت بیانات تک دیے، جو ایک نامناسب رویہ ہے۔ سعودی فرماں روا اور ترک صدر طیب اردوغان کے درمیان براہِ راست بات چیت کی وجہ سے امریکہ کی سخت بیانی کم ہوئی اور امریکہ کو جمال خاشقجی قتل پر مزید کھیل کھیلنے کے لیے زرخیز میدان نہ مل سکا۔
اس مسئلہ کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے، تو صورتحال قدرے واضح ہوجاتی ہے کہ صدر ٹرمپ، شام میں بشار الاسد کے خلاف جنگ کے اخراجات عرب ممالک سے لینے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ امریکہ کا مؤقف ہے کہ ہم عرب ممالک کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس لیے عرب جنگ کے اخراجات ادا کرے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے متنازع بیان یہ دیا کہ ’’امریکہ، سعودیہ کی حفاظت کر رہا ہے۔ اگر امریکہ، سعودیہ کی حفاظت نہ کرتا تو یہ تباہ ہو جاتا۔‘‘ اس کے بعد دوبارہ امریکہ نے سعودی عرب سے اخراجات کا مطالبہ کیا۔
اس میں شک نہیں کہ امریکہ، سعودی عرب کی فوجی کمی پوری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو اسے ایف 15 لڑاکا طیاروں سے لے کر کنٹرول اینڈ کمانڈ تک کا نظام فراہم کرتا چلا آ رہا ہے، جس کی مالیت اربوں ڈالرز میں ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ منصفانہ برتاؤ نہیں کر رہا جس کی وجہ سے واشنگٹن کو ان کی سلطنت کے تحفظ کے لیے بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی شاہ سلمان سے متعلق ایسا متنازع بیان بھی دیا جسے پسند نہیں کیا گیا۔
الجزیرہ کے مطابق صدر ٹرمپ نے ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے سعودی بادشاہ کو کہہ دیا تھا کہ تم ہمارے بغیر 2 ہفتے بھی بادشاہ نہیں رہ سکتے۔ میں نے انہیں بتایا تھا کہ یہ امریکی فوج ہی ہے جو سعودی عرب اور اس کی بادشاہت کی حفاظت کر رہی ہے۔‘‘ صدر ٹرمپ نے ریلی کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم کہتے ہو کہ وہ بہت امیر ہیں؟ مگر ہم ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہاں، میں شاہ سلمان کو بہت پسند کرتا ہوں لیکن میں نے انہیں باور کرا دیا تھا کہ ہماری فوج تمہاری حکومت کی حفاظت کر رہی ہے اور تمہیں اپنی فوج کے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے۔‘‘
صدر ٹرمپ کے اس بیان پر سعودی ولی عہد نے فوری طور پر ترکی بہ ترکی جواب دیا، جس پر صدر ٹرمپ سعودی ناراضی سے بچنے کے لیے اپنا رویہ نرم کرنے پر مجبور ہوگئے۔
دوسری طرف سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا مؤقف ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے خلاف پاکستان کو بھی عالمی برادری کی پیروی کرتے ہوئے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے باوجود سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور پاکستان، سعودی عرب سے اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت شدید بحرانی صورت حال سے دوچار ہے اور ہمیں تاریخ کے بدترین قرضوں کا سامنا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں ہم اپنے پرانے دوست سعودی عرب کی جانب سے دی گئی دعوت کو ٹُکرانے ا نہیں سکتے تھے۔ سعودی عرب، وزیر اعظم کے دورے پر امدادی پیکیج دے کر عارضی مشکلات سے نکالنے میں مدد دینے کے لیے تین برس پر مشتمل معاہدہ کر چکا ہے۔ اس وقت بھی مملکت ’’عاصیہ رہائی کیس‘‘ کی وجہ سے بحرانی کیفیت میں ہے، لیکن وزیراعظم قوم سے خطاب کے بعد مقررہ وقت سے تین دن پہلے یکم نومبر چین کے دورے پر چلے گئے۔ چین سے بڑی ریلیف ملنے کی قوی امید ہے۔ وزیراعظم ملکی بحرانی کیفیت کی شدت سے قبل چین کے دورے سے کامیابی لانا چاہتے ہیں، تاکہ موجودہ نئے بحران کی شدت میں کمی لائی جاسکے اور چین کے تحفظات فوری دور ہوسکیں۔

سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سعودی عرب کا وِژن 2030ء کا منصوبہ تقریباً 130 ارب ریال کی لاگت پر مشتمل ہے۔ سعودی عرب قدامت پسندی سے جدت کی جانب گامزن ہے۔ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحاتی پالیسیوں نے مغربی بلاک کو پریشان کر دیا ہے کہ سعودی عرب مستقبل میں خود کو ایک سپرپاؤر کی حیثیت سے تسلیم کرانے کے لیے عملی اقدامات کی جانب گامزن ہے۔ سعودی و لی عہد کی جانب سے سعودی عرب کو جدید جنگی سازوسامان سمیت ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی میں خود کفیل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا ہے۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی جانب سے سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں جتنے مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں، سعودی عرب حکومت مستقبل میں اس بھاری بوجھ کو کم کرکے سعودی عوام کو ریلیف دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان ایک انتہائی بااثر و طاقت ور شخصیت کی صورت میں اہم پوزیشن رکھتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو مقتول صحافی کیس میں بھرپور دباؤ کے لیے صدر ٹرمپ کی جانب سے سخت بیانات کو سعودی فرماں روا نے انتہائی نا پسند کیا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کی جانب سے مقتول صحافی کے قتل میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا آغاز کرکے سخت دباؤ کو کم کیا ہے۔ ترکی نے سعودی عرب کی جانب سے گرفتار جمال خاشقجی کے مبینہ قتل میں ملوث ملزمان کے خلاف ترکی میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے، جسے سعودی عرب نے رد کرتے ہوئے تحقیقات مکمل ہونے پر ملزمان کو خود سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔
طیب اردوغان چاہتے ہیں کہ سعودی صحافی کے قتل کا مقدمہ ترکی میں چلے۔ تاہم صحافی کے قتل کے حوالے سے سعودی فرماں رواسے ٹیلی فونک رابطے میں مسئلے کے حل کے لیے یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ کیوں کہ ترکی، امریکہ کے عزائم کو سمجھتا ہے، اس لیے جن شواہد کا ذکر ترکی کی جانب سے کیا گیا تھا۔ وہ امریکی مطالبے پر ابھی تک ٹرمپ انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا گیا۔
خیال یہ کیا جارہا ہے کہ مقتول سعودی صحافی کی آڑ میں ولی عہد محمد بن سلمان کو برطرف کرانے کی کوشش بھی جاری ہے۔ متقول صحافی کے مبینہ قتل پر تمام مہذب ممالک یا صحافتی تنظیموں نے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن عالمی منظر نامے میں جس طرح منصوبہ بندی کے تحت سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، وہ عمل ان خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ کچھ عالمی عناصر اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
اہم اور غور طلب بات یہ ہے کہ کس صورتحال سے کسی مملکت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے؟ یہاں مسئلہ صرف یہ نہیں کہ ایک صحافی اپنے مخصوص نکتۂ نظر کے تحت قتل ہوا ہے بلکہ اس وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ اس واقعے کا براہِ راست فائدہ کون اور کیوں اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے؟ کیا کسی بھی ملک، خاص طور پر امریکہ نے دنیا بھر میں سیکڑوں صحافیوں کے قتل کیے جانے پر یہی رویہ اختیار کیا تھا جو اَب اپنایا ہوا ہے؟ امریکہ سمیت عالمی برداری کو صحافت سے وابستہ افراد اور اداروں کو تحفظ اور جائز مطالبات کے لیے غیر جانب دار ہو کر عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ سعودی صحافی جمال خا شقجی کے قتل کو بنیاد بنا کر اسلامی بلاک کے مزید ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش سے گریز کیا جائے، کیوں کہ ایسے اقدامات سے جانب داری اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی منصوبہ بندی و سازش سے عالمی امن کے خطرات میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔