معاشی مسائل اور ان کا حل

اس وقت پوری دنیا پر معاش اور معیشت کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔ پوری دنیا میں معاشی مسئلہ زیرِ بحث ہے۔ اس کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ بینکاری کا ایک عظیم الشان سلسلہ پوری دنیا میں قائم ہے۔ معیشت کو سمجھانے اور پڑھانے کے لیے بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر درجنوں ادارے کام کر رہے ہیں۔ اور یہ نظریہ اور عقیدہ شد و مد اور تفصیلی دلائل کے ساتھ ذہنوں اور فکر میں راسخ کیا جا رہا ہے کہ انسان ایک معاشی حیوان ہے۔ اسی معاشی مسئلے کے لیے حیوانیت کا مظاہرہ کرکے کمزور قوموں کا شکار کرکے ان کو غلام بنایا گیا۔ ان کے وسائل پر غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ کیا گیا۔ افریقی، ایشیائی اور دیگر غیر ترقی یافتہ قوموں کا استحصال کیا گیا۔ دنیا بھر میں سودی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے دولت کو چند ملکوں اور ’’ملٹی نیشنل کمپنیز‘‘ میں مرتکز کیا گیا۔ کمزور قوموں پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی اُو) کا قانون اقوام متحدہ کے ذریعے جبراً تھوپا گیا۔ اور ان ’’ملٹی نیشنل کمپنیز‘‘ کے کثیر سرمائے کے ذریعے ان ملکوں کے وسائل اور خام مال کو لوٹا گیا۔ ’’آئی ایم ایف‘‘ اور ’’ورلڈ بینک‘‘ کے ذریعے سودی قرضوں کے حصول کے لیے کمزور قوموں کی قومی خودمختاری پامال کی گئی اور ان پر کڑی اور سخت شرائط رکھی گئیں۔ سویزر لینڈ اور دیگر ممالک کے بینکوں میں غریب ملکوں کے مقتدر طبقات کا کرپشن کے ذریعے حاصل کردہ سرمایہ چھپایا گیا اور ان کو تحفظ دیا گیا۔
خصوصاً مسلمان ملکوں کو مختلف مسائل ، خانہ جنگیوں میں مبتلا کرکے ان پر اپنا اسلحہ فروخت کیا گیا اور اس ذریعے سے ان کے اندرونی امور و معاملات میں مداخلت روا رکھی گئی۔ پاکستان کے اندر بھی حکمران طبقہ معاشی مسائل کو حل کرنے، معاشی خوشحالی لانے کے لیے زبانی بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، لیکن کھربوں کے سالانہ بجٹ میں چند ارب روپے ترقیاتی سکیموں کے لیے رکھے جاتے ہیں اور باقی کھربوں روپے انتظامی امور، فضول خرچی، نمود و نمائش اور اللّے تللّے میں ضائع کیے جاتے ہیں۔لیکن ایک بنیادی حقیقت جس کا معاشی مسئلے کے ساتھ اہم اور بنیادی تعلق ہے، وہ حکمرانوں کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا۔ اور وہ مسئلہ ’’اخلاقی مسئلہ‘‘ ہے۔
اگر ایک قوم اور ملک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ اس کے ہاں دیانت، امانت کا تصور ختم یا روبہ زوال ہے۔ فلاح و بہبود کا تصور اور عوام کے دکھ درد، محرومی، غربت، بے چارگی کا احساس ختم ہو گیا ہے، تو اس قوم کی معیشت کبھی پائیدار بنیاد پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام و خواص کی اخلاقی تربیت کی جائے۔ ملک میں پاک صاف ماحول بنایا جائے اوریہ پاک صاف ماحول اللہ علیم و خبیر ذات پر ایمان و یقین اور آخرت میں حساب کتاب اور جواب دہی کے احساس کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔
مسلم معاشرے میں پہلے سے ذہنوں میں حرام حلال کا تصور ذہنوں میں رچا بسا ہے۔ ذرا اس کو تازہ کرنے، تقویت دینے اور جلا بخشنے کے لیے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کو کنڑول اور ختم کرنے کے لیے احتساب کے نظام کو سختی سے بروئے کار لانا چاہیے۔ نمود و نمائش اور اسراف و تبذیر کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے۔
دولت کے ارتکاز کو روکنے اور دولت کو معاشرے کے تمام طبقوں کے لیے قابلِ حصول بنانے کے لیے سودی نظام کو بالکل ممنوع اور ختم کرنا ضروری ہے۔ وراثت کی تقسیم کے لیے اسلام کا قانون پہلے ہی سے موجود ہے۔ اس کو فعال اور لاگو کرنا چاہیے۔ جاگیر داری سسٹم کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے اپنے قیام کے ایک سال کے اندر تمام بڑی بڑی جا گیریں کسانوں میں تقسیم کیں۔ نتیجے میں ان کے ہاں جا گیردارانہ نظام نہیں ہے، لیکن قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم کی رحلت سے پرانے جاگیر دار ہمارے ملک کے اقتدار و اختیار کے مالک بن گئے ۔ اور اس کے نتیجے میں ہم آج بھی انگریزوں کے پروردہ ’’وفادار جاگیرداروں‘‘ کے نرغے میں ہیں۔ کئی مرتبہ نام نہاد زرعی اصلاحات کا ڈھونگ رچایا گیا، لیکن آج بھی بہت بڑے بڑے رقبے جاگیروں کی شکل میں موجود ہیں۔
معاشی نظام ملک کے تمام طبقات خصوصاً محروم، مسکین، غریب، محتاج اور وسائلِ زندگی سے محروم عوام کے لیے ہونا چاہیے۔ انسان معاشی حیوان نہیں بلکہ ایک اخلاقی ہستی ہے۔ اگر اس کے اخلاقی وجود کو تسلیم کرکے اس کے لیے اخلاقی پاکیزہ ماحول بنایا جائے، اس کی اخلاقی حِس کو نشو و نما دے کر پروان چڑھایا جائے، تو معاشی مسائل سرے سے ختم ہو جائیں گے۔ لیکن تمام اقدامات میں سب سے بڑی رکاوٹ خود حکمران ہیں، جو مزوں، چرچوں، عیش و عشرت، نمود و نمائش اور اسراف و تبذیر میں مبتلا ہیں اور اپنے اوپر کسی پابندی اور احتساب کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوامی شعور کو بیدا ر کیا جائے اور عوام کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے تیارکیا جائے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔