24 اکتوبر 1945ء کو اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آج اس کو قائم ہوئے تہتر واں سال جا رہا ہے۔ اس ادارے نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیے، وہ قابل ستائش ضرور ہیں، مگر اس کے زیادہ تر نمایاں و پوشیدہ کارنامے ناقابلِ تعریف اور جانب داری کے زمرے میں آتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ سے پہلے ادارہ لیگ آف نیشنز جس کا قیام پہلی جنگ عظیم کے بعد 1920ء میں آیا تھا، ناقابلِ تعریف اور منافقانہ کارکردگی کی وجہ سے بدنام ہوا اور ناکامی سے دوچار ہوا۔ ہمارے خیال میں آج یہ داغ اقوام متحدہ پر بھی لگ چکا ہے۔ لیگ آف نیشنز میں بر تر اقوام کو کمتر اقوام پر، ترقی یافتہ کو ترقی پذیر، کمزور پر اور حاکم اور آقا اقوام کو محکوم اور غلام اقوام پر فوقیت دلائی جاتی تھی۔ یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے لیگ آف نیشنز ناکامی سے دوچار ہوا، بلکہ اقوامِ متحدہ کا جانب دارانہ کردار لیگ آف نیشنز سے بھی بدتر ہے، بلکہ یہ شرمناک حدود کو چھو رہا ہے۔
موجودہ دور میں روئے زمین پر زیادہ تر مسائل مسلم اُمہ کے ہیں، لہٰذا اقوامِ متحدہ کے لیے یہ بات زیادہ لازمی اور قابل توجہ ہے کہ وہ دنیائے اسلام کے جائز اور حل طلب مسائل کو بغیر تعصب کے ترجیحات میں شامل کرے اور بلا تاخیر حل کرنے کی کوشش کرے، جس طرح یہ اپنے مفادات کی خاطر چند ممالک کے مفادات کو دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور عالم اسلام کے ساتھ موجودہ تعصب اور دشمنی کو چھوڑ کر مسلم دنیا کے جائز اور حل طلب مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی سعی کرے۔ مسلم دنیا کے ساتھ اگر موجودہ رویہ بر قرار رہا، تو کچھ شک نہیں کہ یہ اس کے زوال کاسبب بنے۔
عالمِ اسلام جو کہ کم از کم 1/5 کے عالمی تناسب میں دنیا کی بڑی اکائی ہے، اس کو نظر انداز کرنا اقوامِ متحدہ کی بڑی غلطی اور نا اہلی ہے۔ لہٰذا اس ادارے کی بقا انہی حالات میں برائے نام ہوسکتی ہے، حقیقی اور عملی نہیں۔ اس وجہ سے عالمِ اسلام میں اس ادارے سے مایوسی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی ناکامی کا بڑا سبب اس ادارے پر چند عالمی ٹھیکیداروں خصوصاً امریکہ کا قبضہ ہونا ہے، جو اپنے مفادات کی خاطر ہمیشہ سے چھوٹی اقوام خصوصاً مسلم دنیا کے مفادات پر ضرب لگاتا رہا ہے جب کہ روئے زمین پر زیادہ مسائل ان علاقوں کے ہیں جو مسلم دنیا کا حصہ ہیں۔ لہٰذا اگر مسلمان اپنے مسائل کے حل کا شرف اقوامِ متحدہ سے پاسکیں، تو یہ تمام دنیا کے حق میں بہتر ہوگا اور پوری دنیا میں اقوامِ متحدہ پر اعتبار پھر سے بحال ہوجائے گا۔
ہمارے خیال میں اگر مسلمانانِ عالم متحد ہوکر اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کریں، تو اس کا اثر اقوامِ متحدہ پر بھی پڑے گا اور سپر پاؤرز بھی ان مسائل کے حل میں دلچسپی لیں گے۔
اگر مغربی دنیا، عالمِ اسلام کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں اکائی مانتی چلی آ رہی ہے، تو عالمِ اسلام کو بھی چاہیے کہ اپنے لیے اقوام متحدہ میں نشستیں مخصوص کرانے کی کوشش کرے جو اس کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔ اگر دنیا کے دوسرے بڑے اور چھوٹے ممالک اقوامِ متحدہ سے اپنے مسائل حل کراسکتے ہیں، تو مسلمان حکومتیں او آئی سی یا دوسرے پلیٹ فارم سے اپنے مسائل کیوں حل نہیں کرا سکتے؟ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملتِ اسلامیہ کو اس ضمن میں متحد ہوکر باہمی طور پر عملی اقدام کرنے چاہئیں۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔