پچھلے کچھ دنوں سے گداگر خواتین (چنگڑیان) کی جانب سے بچوں کو اِغوا کرنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں، جو نہ صرف والدین بل کہ بچوں میں بھی خوف و ہراس پیدا کر رہی ہیں۔ ان افواہوں اور خبروں کا سماج پر گہرا اثر پڑ رہا ہے، خاص کر بچوں کی ذہنی صحت پر۔
یہ خبریں نہایت تشویش ناک ہیں۔ کیوں کہ جگہ جگہ گداگر خواتین نظر آتی ہیں، جو مختلف چیزیں فروخت کرتی ہیں: جیسے مسواک، تسبیح کے دانے اور اکثر گھروں میں منیاری و کاسمیٹک کا سامان لے جانا۔
غفران تاجک کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ghufran/
اکثر یہ گداگر خواتین ایسی جگہوں پر کھڑی ہوتی ہیں جہاں ٹریفک جام ہو یا کوئی جگہ زیرِ مرمت ہو۔ ان کے متعلقہ سیکورٹی ادارے عدم دل چسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ گداگر تھانوں کو بھتا یا چائے پانی دے رہا ہو،اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔عوام خود اُن کا پیچھا کرتے ہیں، جو آنکھ مچولی کا کھیل بن چکا ہے۔
٭ گداگر خواتین اور رجسٹریشن:۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مطمئن ہوسکتے ہیں کہ گداگر خواتین متعلقہ اداروں سے رجسٹرڈ ہیں اور وہ ٹیکس ادا کرتی ہیں؟ کیوں کہ یہاں ہر کام پر ٹیکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گداگر غیر رجسٹرڈ ہوتے ہیں، اور کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جہاں گداگر کھڑے ہوتے ہیں، اُن جگہوں کو ٹھیکے پر دیا جاتا ہے، جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے اور اس کی وجہ سے گداگروں کا ایک منظم نیٹ ورک قائم ہورہا ہے۔
٭ بچوں کی ذہنی صحت پر اثرات:۔ بچوں کے سامنے ان گداگروں کے خلاف ہونے والی بات چیت اور کارروائیاں بچوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رہی ہیں۔ بچے اسکول اور مدرسوں میں جانے سے ڈرنے لگتے ہیں اور جو جاتے بھی ہیں، وہ دورانِ پڑھائی انھی خیالات میں کھوئے رہتے ہیں۔ اس حالت میں بچے کچھ سیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔
٭ سیلف ڈیفنس اور چاقو یا تیز دھار آلے:۔ خوف کے باعث بچے سیلف ڈیفنس کے طور پر چوری چھپکے گھروں سے سبزی کے چاقو لے جاتے ہیں۔ اگر خدا نہ کرے، راستے میں یا اسکول یا مدرسے میں کسی بچے سے جھگڑا ہوجائے، تو جس بچے کے ہاتھ میں چاقو یا تیز دھار آلہ ہو، وہ نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔
٭ سیلف ڈیفنس کی تربیت:۔ اس خوف کو دور کرنے کے لیے بچوں کو سیلف ڈیفنس کی تربیت دی جاسکتی ہے، جو انھیں نہ صرف محفوظ رکھے گی، بل کہ اُن کے اعتماد کو بھی بہ حال کرے گی۔
٭ آگاہی:۔ بچوں کو بتایا جائے کہ وہ اجنبیوں سے کیسے بچ سکتے ہیں اور انھیں کن چیزوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔ بچوں کو سمجھائیں کہ انھیں کسی اجنبی کے ساتھ بات نہیں کرنی چاہیے، اور نہ ان کی گاڑی میں بیٹھنا ہی چاہیے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جسمانی سزا اور بچے
ایک بچے کے لیے ماں ہونے کی حیثیت سے میرا ذاتی تجربہ
یہ پھول بچے
ہمارے بدنصیب بچے
٭ بنیادی سیلف ڈیفنس ٹریننگ:۔ اسکول،مدرسہ یا کمیونٹی سینٹروں میں بچوں کے لیے سیلف ڈیفنس کی کلاسوں کا اہتمام کیا جائے۔ بنیادی تکنیک سکھائیں جیسے کہ کس طرح خود کو آزاد کروانا، زور سے چلانا اور قریبی لوگوں کی توجہ حاصل کرنا۔
٭ جسمانی قوت بڑھانے کی مشقیں:۔ بچوں کو ورزش کی عادت ڈالیں، تاکہ ان کی جسمانی قوت میں اضافہ ہو۔ کھیل کود اور مختلف کھیلوں میں حصہ لینے سے بھی بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ یہاں بچے اسکول، اسکول کے بعد مدرسہ اور مدرسے کے بعد ٹیوشن یا کوچنگ لے رہے ہیں، تو کھیل کود اور مختلف کھیلوں میں حصہ لینے کا وقت ملتا کہاں ہے اور اگر مل بھی جائے، تو کھیل کے میدان کہاں ہیں؟ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچے اسکول مدرسے داخل کرواتے وقت اسکول میں دست یاب سہولیات کا بہ غور جائزہ لیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اپنے بچوں پر رحم کریں، اُن پر اتنا بوجھ بھی نہ ڈالیں کہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو جائیں۔
٭ معلوماتی سیشن:۔ بچوں کو مختلف حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے معلوماتی سیشن منعقد کیے جائیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اجنبی قریب آئے، تو کیا کرنا ہے…… یا اگر کوئی انھیں پکڑنے کی کوشش کرے، تو کیسے بچنا ہے؟
٭ تکنیک:۔ بچوں کو سکھائیں کہ اگر کوئی اُنھیں پکڑنے کی کوشش کرے، تو وہ کیسے اپنے ہاتھوں اور پیروں کا استعمال کر سکتے ہیں؟ بچوں کو زور سے چلانا سکھائیں، تاکہ وہ کسی خطرے کے وقت دوسروں کو متوجہ کرسکیں۔ بچوں کے تربیتی تمام مراحل دل چسپ اور سنجیدہ ہونے چاہئیں۔
٭ سکول اور مدرسے کی انتظامیہ کی ذمے داریاں:۔ اس حالت میں اسکول اور مدرسے کی انتظامیہ پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں اور اُن کی کونسلنگ کریں۔ اُنھیں بتایا جائے کہ خوف کی حالت میں کیا کرنا چاہیے اور کیسے محفوظ رہنا ہے؟ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے بیگ کی باقاعدگی سے جانچ کریں، تاکہ چاقو یا دیگر خطرناک چیزیں نہ مل سکیں۔
٭ سماجی ذمے داری:۔ سماج کے ہر فرد کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے مسائل کے خلاف کردار ادا کریں۔ ہمیں ایسے ماحول کو فروغ دینا چاہیے، جو انسانی معاشرے کا عکاس ہو، جہاں ہر شخص محفوظ اور مطمئن ہو۔ گداگروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکومتی اداروں کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان گداگر خواتین کے متعلق تحقیقات کی جائیں اور انھیں مناسب تربیت اور روزگار فراہم کیا جائے، تاکہ وہ بہتر زندگی گزار سکیں اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ بچوں کی ذہنی اور جسمانی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور گداگروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سکول، والدین اور سماج کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، تاکہ ہمارا معاشرہ محفوظ، پُراَمن اور انسانی اقدار کا حامل ہو۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔