عجب خان حاجی صاحب کی یاد میں

Blogger Sajid Aman

6 مئی 2020ء کے ایک بہت ہی تھکا دینے والے دن عین نمازِ عصر کی اذان کے ساتھ عجب خان حاجی صاحب نے اذان کا جواب دینا اور کلمۂ شہادت پڑھنا شروع کیا۔ اذان ختم ہوئی اور حاجی صاحب خاموش ہوگئے۔ فوراً رحمان اللہ بابو صاحب کو بلایا گیا، وہ لمحوں کے حساب سے پہنچے اور حاجی صاحب کے انتقال کی تصدیق کی۔ اُس وقت کسی نے یقین نہیں کیا کہ حاجی صاحب انتقال کرگئے ہیں۔
قارئین! ہم عجب خان حاجی صاحب کو ایک مہینے سے سنتے آ رہے تھے۔ وہ کہتے: ’’مسجد سے اعلان ہوگا کہ عجب خان مرگیا ہے۔ نمازِ عشا کے بعد جنازہ ہوگا۔‘‘ ہم ہنس دیتے اور وہ کہتے: ’’آہ! تب یاد کروگے!‘‘
اُن کی اس طرح یقین کی گہرائیوں پر اَب بھی میں حیران ہوں۔ واقعی نمازِ عشا کے بعد اُن کا جنازہ تھا۔ جنازے کے وقت میلہ ڈاگ (مینگورہ) میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
حاجی صاحب (مرحوم) ایک ہی دعا مانگتے تھے کہ یا اللہ! تو بہت عزت والا ہے۔ عزت کی موت دینا۔ کسی کا محتاج نہ کرنا۔
انتقال کرنے سے پہلے مَیں اور ہم سب ساتھ تھے۔ طبیعت ٹھیک تھی۔ پورا دن ہسپتالوں، لیبارٹریوں میں گزارنے کے بعد اُن کو رپورٹ دی۔ مَیں نکل آیا۔ بہ مشکل دفتر پہنچا۔ عصر کی اذان راستے ہی میں سنی۔ اتنے میں سرفراز خان کا فون آیا۔ وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ کہا، ’’ساجد! داجی انتقال کرگئے، ہم تباہ ہوگئے!‘‘
یہ سناونی لمبے عرصے تک خوابوں اور تنہائی میں میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ دوڑ کر پہنچا، تو وہ مطمئن چہرے کے ساتھ محوِ خواب تھے۔ بابو صاحب کھڑے تھے اور ابھی اُن کا جسم گرم تھا۔
قارئین! لکھنا کئی دفعہ بہت آسان ہوتا ہے، مگر بعض مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ پہلے لکھا جائے یا رویا جائے؟
انتقال دراصل عجب خان نہیں کرگئے تھے، اُن سے جڑی تاریخ، جرگہ، دانش، خلوص، عقیدت، صلۂ رحمی، صلح جوئی اور غیرت سب کچھ انتقال کرگیا تھا۔
مرحوم نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اخبار پڑھنے کے شوقین تھے۔ لکھتے خوش خط تھے۔ تعلق استوار کرنے اور نبھانے میں ان کا ثانی نہیں دیکھا۔ فجر سے پہلے بیدار ہوتے، تلاوت کرتے، دعائیں مانگتے اور پھر قرآنِ مجید لے کر صحن میں نکل آتے۔ بہادر آدمی تھے۔ اللہ تعالا کے عاشق تھے۔ اللہ سے باتیں کرتے۔ آسمان کی طرف منھ اُٹھا کر بولتے۔ سامنے قرآنِ مجید ہوتا۔ گھر میں ابھی تک کوئی جاگا نہ ہوتا، جو اُن کو دیکھتا…… منصور کو دیکھتا، عاشقِ خدا کو دیکھتا۔ عشقِ حقیقی میں مست حاجی صاحب کی بات سوائے اللہ کے کوئی نہ سنتا۔ یہ عمل بلاناغہ سال کے تین سو پینسٹھ دن چلتا اور نجانے کب سے چل رہا تھا۔ اُس کے بعد خود کچن جاتے اور چائے بناتے، خود بھی پیتے اور بیگم کو بھی پلاتے…… جو مسلسل ورد کر رہی ہوتیں۔ یہ سلسلہ تا دمِ آخر جاری رہا۔ نماز پڑھنے مسجد کے اندر داخل ہونے والے اولین شخص ہوتے۔ نماز کے بعد پشاور بیٹی کو فون کرتے اور پورا دن سب سے رابطے میں رہتے۔ کون کہاں ہے، کہاں جا رہا ہے، کہاں پہنچا ہے، بچے یا بڑے گھر کے ہر فرد کی خبر رکھتے۔ ہر ایک سے دن میں دو دفعہ ضرور بات کرتے۔ خاندانی دوست، رشتے دار، بچوں کے دوست…… سب کی خبر رکھتے۔ سب کا باقاعدگی سے پوچھتے۔
اہلِ خانہ کو تاکیداً کہتے: ’’اورنگزیب وکیل صاحب کیسا ہے؟ کسی نے حال چال پوچھا ہے، یا مَیں ہی پوچھتا پھروں گا؟ مَیں تو پوچھتا ہوں، تم لوگ بھی شرم کرو، وہ گھر کا آدمی ہے۔ بچہ ہے ہمارا۔ اُس کا وقت ضائع نہ کرو۔ پوچھو، تاکہ اُس کو احساس رہے اپنایت کا۔ بدبختو……! شیر محمد وکیل صاحب کی طبیعت بھی پوچھا کرو۔ پوچھو کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔وہ بڑا آدمی ہے۔ میرا بھائی ہے۔ میرے بھائی کا پوچھو۔‘‘
اپنے ہر بیٹے، ہر بھتیجے سے ان کے دوستوں کا پوچھتے خود بھی رابطہ کرتے۔ پوتے نواسے ہر ایک سے روز رابطے میں رہتے۔ بلا کی یادداشت پائی تھی۔صاف گو تھے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
بزوگر حاجی صاحب  
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست  
صنوبر اُستاد صاحب  
کچھ ناخواندہ ماہرِ تعمیرات عبید اُستاد کے بارے میں  
عبدالروف طوطا اور ڈاکٹر نجیب صاحب سے جڑی یادیں
ایک دفعہ اُن سے سنا تھا کہ آٹھویں میں ڈی ٹین کیا، تو پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ پھر والی صاحب کے ذاتی محافظ کے طور پر ساتھ رہے۔ ملکہ الزبتھ کے دورے کے موقع پر اُن کے ذاتی گارڈ کی ذمے داری مرحوم کو دی گئی تھی۔ دورے کے اختتام تک ساتھ تھے۔ والد صاحب کی بہت خدمت کی۔ کہتے، ’’کاش! مزید بھی کرپاتا۔‘‘
سب سے زیادہ ناراض نادر خان حاجی صاحب سے ہوتے، اور دل کے قریب بھی وہی تھے۔ مَیں کھبی مذاق میں اُن سے کہتا کہ ’’لالا کی برائی کر رہے ہیں، مگر آپ کا مطلب صرف غصہ نکالنا ہوتا ہے۔‘‘ ہنستے ہوئے کہتے، ’’ایک طرف ساری دنیا ہو اور دوسری طرف نادر خان، تو نادر خان کو لوں گا۔ وہ بھائی بھی ہے، دوست بھی ہے اور بیٹا بھی۔‘‘ پھر سر ہلا کر ہنستے ہوئے کہتے: ’’جب مَیں مر جاؤں گا، تو نادر خان کو دیکھنا، پہاڑوں سے سر ٹکرائے گا۔‘‘
نادر خان کہتے، ’’داجی! اپنی عبادات پر توجہ دیں، مرنے کی بات کہاں سے آگئی ؟‘‘ مرحوم جواباً کہتے: ’’بُزدل ہے وہ جس کو ہر وقت موت یاد نہیں رہتی۔‘‘
کہتے، ہر میدان میں بہادری کی ضرورت ہے۔ بس بھائیوں کے رشتے میں بُزدلی بہادری ہے۔ بھائی ہے، تو اُس پر بوجھ نہ ڈالو، خود اٹھاؤ اور اس کو احساس نہ ہونے دو کہ بوجھ کتنا بھاری ہے۔ جب اُس کی باری آئے گی اٹھانے کی، تو اُسے خود بہ خود پتا چل جائے گا۔‘‘
مرحوم کی خواہش تھی کہ اُن کا بڑا بیٹا (رضا خان) مکمل صحت یاب ہو۔ کہتے، بس یہ ایک دعا اللہ پوری نہیں کرتا۔ باقی جو مانگا ہے،ملا ہے۔
ایک دفعہ میونسپل کمیٹی کی میٹنگ میں کہا کہ بابوزئی تحصیل کے سارے لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ کوئی انتقال کرتا ہو، تو کمیٹی کی گاڑی شہر میں اعلان کیا کرے، تاکہ جنازے میں سب شرکت کرسکیں۔ بیرم خان (مرحوم) چیئرمین تھے۔ فوراً مذکورہ تجوپر پر عمل شروع کرا دیا ۔
عجب خان (مرحوم) کی حاجی رسول خان (مرحوم) کے ساتھ دوستی تھی۔ حج سے واپس آ رہے تھے، تو خود لینے گئے۔ خواجہ خان سے بھی بے تکلفی تھی۔ خواجہ خان کو اللہ تعالا لمبی زندگی دے۔ محمد یوسف طوطا (مرحوم)، کاکی خان (مرحوم)، محمدی خان، کاکا اور تمام کونسلروں سے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات تھے۔ جس زمانے میں موشیوں کا بیوپار کرتے تھے، اُس وقت کے گوجرانوالہ، گوندل، راولپنڈی کے لوگوں سے تعلق اور روابط وفات تک استوار رکھے۔ میرا خیل پلو (محلہ) سے نیچے لبِ سڑک مکان بنایا، تو بنگلہ دیش امان کوٹ کے لوگوں کے پاس گئے اور کہا، مَیں آپ کے پڑوس میں آگیا ہوں۔ مجھے چاہو تو اپنی برادری اور غمی خوشی میں شامل کرلو۔ بنگلہ دیش کے لوگ اب بھی یہ بات کرتے ہیں کہ ہمیں جانا چاہیے تھا۔ وہ عزت والا آدمی تھا۔ عزت کرنا اور کرانا جانتا تھا۔
مرحوم کی اپنے بچوں بارے مستقل رائے تھی۔ کہتے، رضا خان پہاڑ کی مانند تھے۔ مَیں اور نادر خان اُس کی آڑ میں جیسے کسی محفوظ مورچے میں تھے۔ رضا خان بیمار ہوا، تو مجھے لگا گویا مَیں کم زور ہوگیا ہوں۔ مرحوم ہر دفعہ رضا خان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاتے، خود اپنے ہاتھ سے گولیاں کھلاتے۔
اس طرح زیب خان کے بارے میں کہتے، اس کے من میں کیا ہے، وہ جانے یا خدا۔ زیب خان کی الگ دنیا ہے، مگر جو کام اُس نے کیا ہے، کوئی نہیں کرسکتا۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ مسافری کی، سب کو پڑھایا لکھایا، سب پہ توجہ دی۔ ایسا کسی اور کے بس میں نہ تھا۔ بیمار بیوی تھی ، چھوٹے بچے تھے، مگر اُس نے سب کو پڑھایا چلایا۔
سرفراز خان کے بارے میں کہتے، دس پہاڑوں کا بوجھ سرفراز پر لاد دو، وہ اُٹھا لے گا۔ کچھ بھی کہو، کر دے گا۔ بس اُس کی خامی یہ ہے کہ وہ غصے اور پیار کے وقت میں فرق نہیں جانتا۔ اُس کی محنت پر افسوس ہوتا ہے، مگر وہ اپنا دشمن خود ہے۔ چاہے تو اپنی زندگی آسان کرسکتا ہے۔
نثار کے بارے میں کہتے، نثار کا دل بڑا ہے۔ بات کیسے کرنی ہے؟ یہ فن جانتا ہے۔ بات کو جلدی سمجھ جاتا ہے۔ رشتے اور دوستیاں نبھانا جانتا ہے۔ کسی مشکل سے نہیں گھبراتا ۔
سیف اللہ کے بارے میں کہتے، نیت کا صاف ہے۔ آنکھ میں حیا ہے۔ ملنگ ہے۔ (ہنس کر کہتے) لیکن پیسا پہچانتا ہے، یہ بھی بتا دوں۔
افضل کے بارے میں کہتے، ناک کی سیدھ میں چلتا ہے۔ اچھا ہے نہ برا ۔ بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے ۔
عمران کے بارے میں کہتے، اب اگر عمران نے کچھ کیا سیاست میں تو ٹھیک ہے، ویسے اُس میں تعلق رکھنے کی اہلیت ہے، خدمت گار بھی ہے۔ عدنان کو بھی سیاست کا شوق ہے، مگر میری خواہش ہے کہ اُس کی نوکری لگے اور جس نے مجھے یہ خوش خبری دی،میرے پاس جو ہوگا تحفتاً دے دوں گا۔
عرفان کے بارے میں کہتے، وہ تو ابھی کرکٹ کھیلتا ہے۔ابھی دنیا سے بے خبر ہے ۔
حاجی صاحب کی آواز بہت بلند تھی، گرج دار، سخت…… مگر اُن کا دل اتنا ہی نرم تھا۔ کتنے گھر اُن کی چھپ کر کی جانے والی امداد سے چلتے تھے، کتنے مریضوں کی دوا خرید کر دیتے تھے۔ مخلوق کی مدد اس طرح کرتے کہ دائیں ہاتھ سے بایاں بے خبر رہتا۔
مرحوم کے حقیقی دوست اُن کے اپنے پوتے اور نواسے تھے۔ اُن کے ساتھ بڑے بے تکلف رہتے۔ گپ شپ، کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا اور ان کے دوستوں اور پڑھائی کے متعلق پوچھتے، اور ایسا کرنا اُن کا روز کا معمول ہوتا۔
ایک دفعہ مرحوم کہنے لگے کہ جوانی میں بہت آزاد اور خود سر تھا۔ جوانی زوروں پر تھی ۔ ایک دفعہ بدمست ہوکر گھر جا رہا تھا کہ غلطی سے کسی اور کے کواڑ پر ہاتھ رکھ دیا۔ گھر کا مالک غریب آدمی تھا۔ اُس نے کہا کہ خان یہ میرا غریب خانہ ہے، آپ کا گھر دوسری گلی میں ہے۔ وہ زندگی میں واضح تبدیلی لیے آیا۔ بہت ڈر گیا اور کبھی اللہ کی زمین پر اکڑ کر نہ چلا۔ اس کے بعد ہر گھر کے سامنے سر جھکا کے گزرا۔ والی صاحب نے کئی مرتبہ ناراض ہوکر سزا دی اور پھر معاف کی۔ والی صاحب کی بہت عزت کی۔ اُنھوں نے بھی بہت عزت ہی دی۔
قارئین! مرحوم تین سال باقاعدگی سے صبح 10 بجے اور شام 4 بجے میرے ساتھ تھوڑے وقت کے لیے بیٹھتے،لیکن پوری توجہ میری طرف ہوتی۔ اُن کی باتوں میں سچائی، لہجے میں خلوص اور انداز میں اپنائیت تھی۔ ایسا صرف میرے ساتھ نہیں بل کہ سب کے ساتھ تھا۔ کھیت میں کھڑے ہوکر ہر گزرنے والے سے دعا سلام کرتے۔ جو بے دھیانی سے گزر رہا ہوتا، اُس کو آواز دے کر متوجہ کرتے۔ مینگورہ سوات کی تہذیب و ثقافت کا عملی نمونہ تھے۔
انتقال سے ایک ہفتہ پہلے گھر کے تمام چھوٹے بڑے کو جمع کیا اور کہا کہ مَیں نصیحت اور وصیت کرنے لگا ہوں۔ اُس کی وڈیو ریکارڈ کی گئی۔ کیوں کہ سب سمجھ رہے تھے کہ وہ ایسے ہی کچھ بول رہے ہیں۔ کسی نے جیب میں فون رکھ کر ریکارڈنگ کی۔ بولے، مَیں مر جاؤں، تو نادر خان کے سامنے کوئی نہ آئے۔ اُس کی نافرمانی کوئی نہ کرے۔ میرے بعد میرا بھائی میرا وارث ہے۔ اُس کی بات حتمی ہوگی۔ اُس سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ مل جل کر رہنا اور بے اتفاقی ہرگز نہ کرنا۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، نادر خان کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ میرے پاس وقت کم ہے۔ جا رہا ہوں۔ میرے دن پورے ہوگیے ہیں۔ دعا کریں کہ عزت کی موت ملے۔ کسی کی محتاجی سے مَیں، میرا بھائی اور میری اولاد بچی رہے۔‘‘
مرحوم کی ان باتوں کو مذاق سمجھا جا رہا تھا۔ ایک ہفتے بعد ایسے ہی کسی کو احساس دلائے بغیر رخصت ہوگئے۔
اللہ تعالا مرحوم عجب خان کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے