"ہاں میں نے اپنی شادی شدہ بہن اور اس کے شوہر کو اپنے چچا زاد کے ساتھ مل کر قتل کیا ہے۔ اس پرمجھے ذرا بھی افسوس نہیں۔ کیوں کہ میری بہن نے ہماری عزت کا جنازہ نکال دیاتھا۔ ایک سال قبل وہ (مقتول) ذیشان کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس نے نکاح کیا، مگر لوگ کہتے ہیں کہ نکاح کے وقت کوئی دوسرا لڑکا تھا ۔ اب وہ اس کو طلاق دینا چاہتاتھا۔ میں نے کئی مہینوں سے اس کا پیچھا کیا اور آج صبح ان کو پالیا۔ دنوں کو پستول سے گولی ماردی اور بعد میں چاقو سے بھی وار کیے۔ مجھے معلوم ہے عدالت مجھے پھانسی کی سزاد ے گی۔ مجھے اس کا کوئی افسوس اور رنج نہیں۔” یہ الفاظ ہیں سلاخوں کے پیچھے اُس اکیس سالہ نوجوان کے جو پولیس کی تحویل میں قتل کے الزام میں بند ہے۔
یہ ہے سوات کے ان سیکڑوں واقعات میں سے ایک جس کو پولیس غیرت کے نام پر قتل نہیں مانتی۔ یہ واقعہ 23 مارچ2018 ء کو پیش آیا ۔ ایف آئی آر کے مطابق حمید نامی شخص نے اپنی بہن اور بہنوئی کو نامعلوم وجوہات کی بناپر گولی مارکر قتل کیا۔اس کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا اور مقتولین کے ورثا کے دعوے پر حمید نامی شخص کوا س کے ساتھی سمیت گرفتارکرکے تفتیش شروع کردی گئی۔ مقتول کے چچا نوید کا کہناہے کہ یہ غیرت کے نام پرقتل نہیں۔ کیوں کہ صرف ناجائز تعلقات کی بنا پر غیرت کے نام پرقتل کیا جاتا ہے جب کہ ان کے بھتیجے نے باقاعدہ نکاح کیاتھا۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ جس میں پلوشہ(فرضی نام ) کہتی ہے کہ اس کی سہیلی جو نویں جماعت میں پڑھتی تھی، اپنے ہی خاندا ن کے ایک لڑکے سے محبت کرتی تھی۔ لڑکے والوں نے اس کا رشتہ مانگا، جس کو لڑکی کے بھائیوں نے اس وجہ سے ٹھکرا دیاکہ لڑکا غریب ہے اور ان کے خاندان کے برابر کا نہیں۔ لڑکی کو اس رشتے کے انکار پر رنج تھا۔ اس نے چپکے سے اپنی ماں کو بتایاکہ وہ صرف اس لڑکے سے شادی کرے گی ورنہ کسی سے بھی نہیں۔اس بات کا کسی طرح اس کے بھائیوں کو علم ہوا جس پر بھائیوں نے مل کر نوجوان بہن کو زہر دے کر قتل کردیا اورخاموشی سے اس کو دفنا دیا۔خاندان میں منادی کرادی کہ لڑکی بیمار تھی۔ پلوشہ نے روتے ہوئے کہا کہ اس کی سہیلی کے پورے خاندان کو معلوم تھا کہ اس کو بھائیوں نے کس وجہ سے اسے قتل کیا تھا، مگر سب خاموش تھے۔مجرمانہ طور پر پولیس کیس بنا اور نہ خاندان والوں نے ڈر کے مارے کسی کو کچھ بتایا۔ ایک جوان لڑکی صرف محض اس وجہ سے قتل کر دی گئی کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔
خیبر پختون خوا پولیس کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں پورے صوبے میں 580 افراد کو غیرت کے نام قتل کیاگیا ہے، جن میں 326 خواتین ہیں۔ یہی نہیں 396 خواتین کو دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کیے جانے کے کیس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ خیبر پختون خوا پولیس خواتین کی خودکشی کے واقعات کی تعداد بتانے میں ناکام رہی۔ اس طرح پولیس یہ اعداد وشمار بھی نہیں دے رہی کہ کتنے ملزمان کو غیرت کے قتل میں گرفتار کیا گیا ہے اور کتنے ملزموں کواس جرم میں سزائیں ہوئی ہیں؟ تاہم بعض پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ تاحال غیرت کے نام پر قتل کے الزام میں کسی بھی ملزم کو صوبے بھرمیں سزا نہیں ہوئی۔ پولیس کے مطابق جن کیسوں میں غیرت کے نام پرقتل کی خصوصی دفعہ لگائی جاتی ہے، اس میں کئی افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ پولیس کے مطابق قتل کیے گئے افراد میں ساٹھ فیصد سے زائد خواتین شامل ہیں۔ پشاور میں ’’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ (ایچ آر سی پی) کے ریکارڈ کے مطابق 2013ء تا 2017ء 473 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ جس میں 114مرد بھی شامل ہیں۔ ایچ آرسی پی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پانچ سالوں میں 468 خواتین کو دیگر وجوہات کی بنا پر موت کے گھاٹ اتاراگیا۔اسی طرح 214 خواتین نے خود کشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا جبکہ 32 خواتین کی اموات کو خودکشی کا نام دیاگیا۔ یہ وہ واقعات ہیں جوکمیشن نے مختلف اخبارات اور پولیس رپورٹس سے حاصل کیے۔ سرکاری ادارے (پولیس) اور غیر سرکاری اداروں کے اعداد وشمار میں بہت زیادہ تضاد پایا جاتاہے۔ اس صورتحال کا تجزیہ خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں ہونے والے واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ سوات پولیس کے مطابق 2013ء سے 2017ء کے پانچ سال کے دوران میں 33 افراد پر غیر ت کے نام پر قتل کرنے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ ان میں سے بیشتر کو گرفتار کیا جاچکا ہے، تاہم کسی بھی مقدمے میں ملزموں کو عدالت سے سزا نہیں ہوئی۔پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ان پانچ سالوں میں 140خواتین کو دیگر وجوہات کی بناپر ہلاک کیاگیا۔اس دوران میں 739خواتین نے خودکشی کی کوشش کی ۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ایسے کیسز ان کے دائرہ اختیارمیں شامل نہیں، اس لئے خواتین کی خودکشی کا مکمل ریکارڈ موجود نہیں۔
اس کے برعکس ضلع سوات میں خواتین کے حقو ق پرکام کرنے والی ’’اویکننگ‘‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق ان پانچ سالوں میں 132 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، جن میں بیشتر خواتین ہیں۔ ادارے کے مطابق ان پانچ سالوں میں 55 خواتین کو دیگر وجوہات کی بناپر قتل کیا گیاہے جب کہ سوات پولیس کے مطابق 140 خواتین کو دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیاہے۔ دی اویکننگ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرفان حسین بابک کے مطابق ان کا ادارہ پچھلے آٹھ سالوں سے خواتین کے حقوق اور خصوصاً غیرت کے نام پر قتل کا ریکارڈ جمع کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ اعداد و شمار مختلف اخبارات میں چھپنے والی رپورٹس، پولیس ایف آئی آرز اور بعدمیں ان واقعات کی خود چھان بین کے بعد مرتب کی ہے۔اس طرح وہ مختلف علاقوں کے مشران کے ساتھ آگاہی سیشن لیتے ہیں، ان سے بھی معلومات اکھٹاکرتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار میں تضاد اور واضح فرق کے بارے میں سوات میں ’’اویکننگ‘‘ ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرعرفان حسین بابک کا کہنا ہے کہ ان کی اعداد و شمار بالکل درست ہیں، پولیس کے اعداد وشمار میں فرق کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات کو دبا دیتی ہے۔ بیشتر واقعات میں غیرت کے لیے مخصوص دفع نہیں لگاتی۔ اس کے ثبوت کے طورپر انہوں نے تین ایف آئی آرز پیش کیں جن میں ملزمان نے اقرار کیاکہ انہوں قتل غیرت کے نام پر کیا، مگر پولیس نے ان مقدمات میں غیرت کے نام پرقتل کی دفعہ نہیں لگائی۔عرفان بابک کا کہنا ہے کہ پولیس، تفتیش سے بچنے اور قتل کے مقدمے میں راضی نامہ کا راستہ کھلا چھوڑنے کے لیے ایسا قصداً کرتی ہے ۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ سوات میں زیادہ تر خواتین کے قتل کو خودکشی کا نام ہی دیاجاتاہے اور اس حوالے سے انہوں نے کئی مقدمات کا حوالہ دیا جس میں اویکننگ کی مداخلت کی وجہ سے پوسٹ مارٹم سے ثابت ہوا ہے کہ خاتوں کو تشدد کرکے قتل کردیاگیاہے مگر رشتہ داروں نے اسے خودکشی کا نام دیاتھا جبکہ پولیس نے اس میں تفتیش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
دی اویکننگ کے مطابق پانچ سالوں میں انہوں نے ہزاروں کیسوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطابق چودہ ایسے مقدمات انہوں نے ذاتی طورپر عدالت میں پیش کیے ہیں جن میں غیرت کے نام پر قتل کو کوئی دوسرا نام جیسے خودکشی، حادثہ یا کوئی دوسرا نام دیاگیا ہے۔ ان کی مداخلت پر عدالت نے ان مقدمات میں غیرت کی اور قتل کی دفعات شامل کرنے کا حکم دیا۔ ان کے مطابق ان کا ادارہ وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں میں قانون کی بالادستی اور غیرت کے نام پر قتل بارے آگاہی مہم چلاتا ہے ۔ اویکننگ کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 14 اکتوبر 2014ء کو تحصیل کبل میں خودسوزی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا جس میں ایک نو بیاہتا خاتون نے مبینہ طوپرگھریلو ناچاقی کی وجہ سے خود کو آگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کیا تھا اور رشتہ داروں نے اس کو دفن کردیاتھا۔ خاتون کاشوہر بیرونِ ملک مقیم تھا۔ پولیس نے اس کو صرف ایک حادثہ قرار دے کر رپورٹ فائل کی تھی، مگر اس ادارے کی مداخلت پر پولیس نے دودن بعد قبرکشائی کرکے نعش کاپوسٹ مارٹم کیا،جس سے ثابت ہواکہ خاتون کو قتل کیا گیاتھا۔ بعدمیں پولیس نے کارروائی کرکے باقاعدہ مقدمہ درج کیا۔ قتل کے الزام میں خاتون کے سسر، دیور اور ساس کوگرفتارکرلیاتھا۔ اویکننگ کے مطابق ملزمان نے اقبال جرم کیا اور اپنی بہو پر غیر مردوں کے ساتھ موبائل پر باتیں کرنے کا الزام لگایاتھا۔ اس مقدمے میں ادارے کی مداخلت پر قتل اور غیرت کی دفعات شامل کی گئیں۔ مقدمہ تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اس طرح ایک اور واقعہ بتاریخ 27 اگست 2018ء کو سوات کی تحصیل کبل کے علاقے علی گرامہ میں پیش آیا۔ پولیس کی ایف آئی آر نمبر 673 کے مطابق ان کو اطلاع ملی کہ ملزم ج (جان سید) نے اپنی بیوی اور بیٹی کو گولیاں مارکر قتل کردیا ہے۔ واقعے میں ملزم کا ایک ذہنی مریض بیٹا زخمی بھی ہواہے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ مقتولہ کے ایک شخص کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اور وہ اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی، جس گھر میں وہ رہتی تھی، اسی گھر پرقبضہ بھی کرناچاہتی تھی۔ اس طرح مقتولہ نے اپنی شادی شدہ بیٹی کو بھی گھر پر بٹھایا ہوا تھا اور اس سے ناجائز کام کروا رہی تھی۔ اس کیس میں بھی پولیس نے غیرت کے لیے مخصوص دفع نہیں لگائی بلکہ وجۂ قتل جائیداد کا تنازعہ ظاہرکی گئی تھی۔ اس واقعے کے بارے میں مقتولہ کے ہمسائے اور ولیج ناظم سردار علی نے میڈیا کو بتایا کہ مقتولہ اور ان کی بیٹی کو ناجائز تعلقات کی بنا پر قتل کر دیا گیا ہے جوکہ صرف اور صرف غیرت کے نام پر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقتولہ اور ان کے شوہر کے درمیان کسی قسم کی جائیداد کا تنازعہ نہیں تھا۔ ملزم زیادہ تر گھر سے مزدوری کے سلسلے میں باہر رہتا تھا۔ کبھی کبھار گھر آتا تھا جبکہ پولیس کے مطابق ملزم کو اسلحہ سمیت گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
دی اویکنگ ادارے کے ساتھ بطورِ قانون دان کام کرنے والے ہائی کورٹ کے وکیل سہیل سلطان کا کہنا ہے کہ حکومت خیبر پختون خوا نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے مطابق غیرت کے نام پرقتل ہونے والے مقتول کے مقدمے کی مدعی پولیس خود ہوگی۔ کیوں کہ غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والے فرد یا افراد کو زیادہ تران ہی کے رشتہ دار یا وارث ہی قتل کرتے ہیں جس کا کوئی مدعی نہیں ہوتا ۔ اسی لیے پولیس تفتیش اور عدالتوں میں مقدمات چلانے کی محنت سے بچنے کے لیے سرے سے غیرت کی دفع شامل ہی نہیں کرتی۔ اگر ایسا نہ کیا جائے، تو غیرت کی دفع شامل ہونے کے بعداس مقدمے میں مدعی پولیس افسر بن جاتاہے اورپھر اسے کیس کے اختتام تک کیس کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔اس کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ ایسے کیسز میں کسی قسم کا راضی نامہ ممکن ہی نہیں ہوتا اور ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے جاتے ہیں ۔جرم ثابت ہونے پرکم از کم دس سال قید بامشقت ہے ۔ جوکہ قتل کے جرم کی سزا کے علاوہ تصور کی جاتی ہے۔
عرفان حسین بابک کاکہناہے کہ قتل کے مقدمے میں راضی نامہ کا راستہ کھلا چھوڑنے سے تفتیشی افسر کے پاس ملزم کو بچانے کاایک پتا ہاتھ آجاتاہے اور وہ مدعی کو کسی نہ کسی طرح راضی کرکے قتل کے ملزم ساتھ راضی نامہ کرادیتا ہے جس میں پولیس کو مبینہ طورپر کمیشن، رشوت یا مالی فائدہ پہنچ جاتاہے جبکہ افسر مزید تفتیش اور عدالتوں کے چکر سے بچ جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ افسر کی کارکردگی میں بھی قتل کا مقدمہ حل کرنے کا کریڈیٹ آجاتا ہے۔
ایسے قتل کے مقدمات کے بارے میں ضلع سوات کے پولیس افسر واحد محمود کا کہناہے کہ اس طرح بالکل نہیں ہوتاکہ غیرت کے نام پرقتل ہو اور اس کوکوئی دوسرانام دیاجائے۔انہوں اس بات کا اعتراف بھی کیاہے کہ جن کیسوں میں پولیس اہلکارکوتاہی کرتے ہیں، وہ ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور کئی پولیس افسروں کونہ صرف معطل کیا گیا ہے بلکہ ان کی ترقی بھی روک دی گئی ہے۔ واحد محمود نے مزیدبتایا کہ اس طرح کے مقدمات میں مشکلات کاسامناہوتاہے۔ کیوں کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اس کو اپنا کیس سمجھتاہے۔ ایسے قتل میں زیاد ہ تر رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔ پشتون معاشرے میں بھی پولیس کو اسطرح کے مقدمات کو حل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرناہوتاہے۔ کیوں کہ نہ توکوئی گواہی اور نہ ہی کوئی ثبوت دیتاہے لیکن پھر بھی پولیس اس طرح کے مقدمات کی تفتیش کرتی ہے۔ اسے عدالت تک لے جاتی ہے۔ جب اس حوالہ سے واحد محمود سے سوال کیا گیا کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے کسی ملزم کو سزا کیوں نہیں ہوئی؟ تو ان کا جواب میں کہنا تھا کہ عدالت ثبوت اور گواہ کی بنیاد پر سزائیں دیتی ہے جب کہ غیرت کے نام پر قتل کے ملزم کو مجرم ثابت کرنابہت مشکل ہوتاہے۔ کیوں کہ کوئی بھی اس سلسلے میں پولیس کی مدد کو تیار نہیں ہوتا۔
سوات میں غیرت کے نام پر قتل بارے غیر سرکاری ادارے دی اویکننگ کا پانچ سالہ ریکارڈ 2013ء تا2017ء
غیرت کے نام پرقتل 132
خودکشی 55
کل قتل 187
سوات میں غیرت کے نام پر قتل بارے پولیس کا پانچ سالہ ریکارڈ 2013ء تا 2017ء
غیرت کے نام پرقتل 33
خودکشی کی کوشش 739
دیگر وجوہات پر قتل 140
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن میں باپ، بھائی یا رشتہ دار اپنے ہی خون کے رشتے کو قتل کر دیتے ہیں۔ اس بارے میں مختلف آرا ہیں، مگر زیادہ تر لوگوں کی رائے مشترک ہے۔ سوات میں خواتین کا جرگہ قائم کرنے والی سماجی کارکن تبسم عدنان کا کہنا ہے کہ ان کے جرگے کا مقصد علاقے میں خواتین کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ گھریلو تنازعات کے لیے فریقوں کے درمیان صلح کرانا ہے۔ اس طرح اگر کسی خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، تو اس کی قانونی مدد بھی کی جاتی ہے۔ تبسم عدنان کا کہنا ہے کہ جنوری 2013ء میں انہوں نے خواتین جرگہ اس مقصد سے بنایا تھا کہ اس میں خواتین سے متعلق جرگے کے فیصلے میں خواتین کو حصہ دیا جائے گا، ان کے مطابق ان کے جرگے کے ارکان چودہ سے چوبیس تک ہیں اور مختلف نوعیت کے تنازعات فریقوں کے درمیان حل کراتے ہیں اور ان میں صلح کراتے ہیں۔ ان کے پاس زیادہ تر خواتین پر گھریلو تشدد، نان نفقہ نہ دینا، خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینا، طلاق، قتل، اقدامِ قتل، قرضہ جات کی و صولی، خواتین کی اسمگلنگ وغیرہ کے مسائل آتے ہیں۔تبسم کے مطابق ستمبر 2018ء تک ان کے پاس ایک ہزار سے زائد ایسے ہی نوعیت کے تنازعات آئے جوکہ ریکارڈ پر ہیں۔ ان میں قتل اور اقدامِ قتل کے معاملات بھی شامل ہیں۔ان کے مطابق نو سو سے زائد مقدمات اور تنازعات کو گفت وشنید اور راضی ناموں کے ذریعے حل کیا جاچکا ہے۔سو کے قریب کیسوں میں فریقین کا راضی نامہ نہ ہوسکا، اوران کو عدالت بھیجوادیا گیا۔ ان کیسوں میں خواتین کی قانونی، اخلاقی اور مالی امداد بھی فراہم کرچکے ہیں۔
تبسم عدنان کہتی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کی سب سے بڑی وجہ پختون روایات یا کلچر ہے جس میں اگر کوئی خاتون کسی غیر مرد کے ساتھ تعلق قائم کرے یا اپنی مرضی کے مطابق شادی کرے یا شادی کرنے کی خواہش ظاہر کرے یا کوئی خاتون طلاق کا مطالبہ کرے، تو پختون معاشرے میں اس کو غیرت کے نام پر قتل کردیاجاتاہے۔کئی خواتین کو اس وجہ سے بھی قتل کردیاگیاہے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں سے جائیداد میں حصہ مانگا۔ اس طرح ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں جس میں خاتون کسی این جی او میں نوکری کرتی تھی اور اس کو قتل کردیاگیا۔ تبسم عدنان کے مطابق سوات میں خواتین کو بے دردی سے مارنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک کسی ملزم کو سزا دے کرنشان عبرت نہیں بنایا گیا۔ بیشترکیسز میں ملزم بری ہوجاتے ہیں ۔تبسم عدنان کہتی ہے کہ علاقے میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے لیے انہوں کئی مرتبہ احتجاج کیاہے۔ انہوں نے پریس کانفرنسز کیں۔ اس طرح خواتین پر تشدد اور سورہ (ونی ) کے حوالے سے انہوں نے بھی اپنی آواز کو مختلف فورمز پر اٹھایا ہے اور اس کی وجہ سے علاقے کی کئی متاثرہ خواتین اور خاندانوں کو انصاف مل چکاہے جس کی تفصیل بہت بڑی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے ریکارڈ میں سیکڑوں متاثرہ خواتین کی تفصیل موجود ہے جس میں پولیس نے کوتاہی کا مظاہرہ کیاہے۔ بعد میں ان کی مداخلت پر پولیس نے ان کیسوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔
خواتین میں خودکشی کے واقعات کی وجوہات: خیبر پختون خوا اور خاص کر سوات میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تبسم عدنان کاکہناہے کہ زیادہ تر خواتین کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا جاتاہے اور پھر خاندان بھر کے لوگ ان کو خودکشی کا نام دیتے ہیں جوکہ سراسر ظلم اور انسانیت سوز فعل ہے۔ ان کے مطابق خواتین میں خودکشی کے زیادہ رجحان کی بنیادی وجہ وہ مشکلات اور مسائل ہے جوکہ ان کو عام زندگی اور خصوصاً گھروں کے اندر درپیش ہیں۔ان میں خواتین کے ساتھ اپنوں کا غیر مساوی سلوک، ان کو کم تر درجے کا انسان سمجھنا، شادی شدہ خواتین کو خرچہ نہ دینا، مارپیٹ اورطعنہ زنی شامل ہے۔ دوسری اہم وجہ وہ شادی شدہ خواتین جن کے شوہر کئی سالوں سے بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں، ان کے بچیوں اور بیویوں کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے۔ تبسم عدنان کے مطابق پشتون معاشرے میں زیادہ تر مشترکہ خاندانی نظام رائج ہے جس میں سب سے زیادہ استحصال خواتین ہی کا کیاجاتاہے۔ان کو وقت پر کھانانہیں ملتا، بیمار ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس نہیں جاسکتی، خواتین کی سیر و تفریح کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتاجبکہ ان سے جانوروں جیسا کام لیاجاتاہے۔ شادہ شدہ خاتون کو والدین کے گھر سے یہی کہا جاتا ہے کہ جس گھر میں تیری ڈولی گئی ہے، وہاں سے صرف تیرا جنازہ ہی نکلے گا۔ ان وجوہات کی بنا پر خواتین دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لیتی ہیں۔
سوات سیدو شریف اسپتال میں شعبۂ نفسیات کے ڈاکٹر راحیل شاہ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں خودکشی کی کئی وجوہات ہیں جن میں کم علمی سر فہرست ہے۔ خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد ناخواندہ ہوتے ہیں۔ ماضی میں سوات کے حالات بہت کشیدہ رہے ہیں، اس وجہ سے بھی خودکشی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ زیادہ تر خودکشی کرنے والے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں اور وہ علاج کے لیے راضی نہیں ہوتے، شرماتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں لوگ ان کو پاگل تصور نہ کریں۔یہ حالات انہیں خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر راحیل نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں حکومتی اداروں اور خاص کر علما بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ عوام کی رہنمائی کریں کہ زندگی انمول ہوتی ہے اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔
سوات سیدوشریف میں سرکاری دارالعلوم کے مفتی سردراز کا کہناہے کہ پاکستان کے قانون کے مطابق قتل قابلِ سزاجرم ہے۔اسی طرح دینِ اسلام میں بھی کسی انسان کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل کہاگیاہے۔ حکومتِ وقت موجو د ہونے کے باجود اگرایک شخص کسی بھی دوسرے شخص کو کسی بھی وجہ سے قتل کرکے قانون اپنے ہاتھ میں لے، تویہ گناہ عظیم ہے اور دین اسلام میں وہ قاتل تصور کیاجاتاہے اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی بہت بڑی سزا ہے ۔
خیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لیے خصوصی ادارہ ’’خیبر پختون خوا کمیشن برائے وقارنسواں‘‘ قائم کیا گیا ہے، جو خواتین کے حقوق کے لیے وزارت کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کی سربراہ نیلم طورو کے مطابق وہ اور ان کا ادارہ غیرت کے نام پرقتل کی پُرزور مذمت اور مخالفت کرتا ہے۔ان کے مطابق ’’ غیرت کے نام پر قتل خواتین پر صنفی تشدد کی بدترین قسم ہے۔ نام نہاد غیرت کی بنیاد پر قتل کی نہ تو مذہب اجازت دیتاہے اور نہ آئینِ پاکستان۔‘‘ ان سے جب یہ پوچھا گیاکہ ان کا کمیشن غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے کیا کررہاہے اور جو قتل ہورہے ہیں، اس بارے میں کیا معلومات دستیاب ہیں؟ تو اس حوالہ سے نیلم طوروکا دعویٰ ہے کہ ان کا کمیشن خواتین پر ہونے والے ہرقسم کی تشدد کی روک تھام کی کوشش کررہا ہے۔ کمیشن کے کام کا دائرہ کار قانون سازی سے متعلق سفارشات طے کر نا ہے۔ جہاں ممکن ہو صنفی تشدد کے متاثرین کی داد رسی کے لیے حکومتی سطح پر آواز اٹھانا بھی کمیشن کا کام ہے۔ نیلم طورو کہتی ہیں کہ ہم یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ عوام الناس میں غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قوانین کے بارے میں شعور بیدار کیاجائے۔ ایک جنڈر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم پر بھی کام ہو رہا ہے جس کا مقصد اس قسم کے واقعات سے متعلق باضابطہ معلومات اور اعداد و شمار اکھٹا کرنا ہے، تاکہ مربوط شہادت کی بنیاد پر انتظامی سقم کو دور کیا جاسکے۔
ضلع سوات میں پی ٹی آئی شعبۂ خواتین کی صدر اور ضلع کونسل میں کونسلر انبیا غیرت کے نام پر لیے گئے تمام واقعات کی پرزور مذمت کرتی ہے۔ کہتی ہیں کہ صوبے میں خواتین کے حقوق اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے واضح قانون ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے، جس کی وجہ سے ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ انہوں نے ضلع کونسل میں بھی آواز اٹھائی ہے اور پی ٹی آئی کے اعلی سطح اجلاسوں میں بھی یہ ایشوزیرِ بحث لایا گیا ہے۔ وہ خود ذاتی طورپر اور پارٹی کی سطح پر کوشش کررہی ہے کہ اس طرح کے واقعات کو روکا جائے۔ اس کے لیے تعلیم، اہم ضرورت ہے ۔والدین میں یہ آگاہی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ سوات جیسے علاقے میں کم عمری کی شادی عام ہے۔ اس کے لیے آگاہی کی ضرورت ہے ۔ اس طرح بہت سارے عوامل ہیں جن کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کیے جارہے ہیں ۔ ان تمام عوامل پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات خواتین کو خود اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاناچاہیے۔ اس سے بہت حد تک خواتین کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
سوچ، باتیں، دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنی عزت کا بہانہ بنا کر دوسروں کو غیر ت کے نام پرقتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ قانون موجود ہے لیکن قاتل کو سزا نہیں ملتی ۔یہاں ایک شخص ، خاندان کو نہیں بلکہ سوچ کو بدلنا ہوگااور یہ سوچ ماں کی گود سے ملے گی، لیکن اس سے پہلے ماں کو عزت دینا شرط ہے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔