سواتی علاقوں پر نوابِ دیر کے دوبارہ قبضہ کے خوف سے خوب خوب فائدہ اٹھایا گیا اور اس بہانہ سے تمام سرحدی علاقوں میں قلعے تعمیر کیے گئے۔ یہ کسی حد تک دفاع کے نقطۂ نظر سے ضروری تھا، لیکن پوری ریاست میں قلعوں کی بھرمار کی کوئی منطق نہیں تھی۔ یہاں تک کہ باچا صاحب نے نیک پی خیل کے کچھ سرکردہ افراد کو 2400 روپے رشوت دے کر "دنگ ارکوٹ” میں قلعہ تعمیر کروایا۔ ان کا اصل مقصد اور اہمیت مرکزی حکومت کے اقتدار و اختیار کے لیے ایک زندہ علامت بن کر ہر جگہ اُس کے ہونے کا احساس دلانا تھا۔ ان کو اندرونی بغاوتیں کچلنے، سرکاری ضوابط اور حکمران کے فرامین پر عمل در آمد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔
قلعہ کے کمانڈر کے لیے لازمی شرط تھی کہ وہ ایک قابل بھروسا شخص ہو، جس کا تقرر مرکز سے کیا گیا ہو۔ جب کہ سپاہی اُسی علاقہ کے غریب افراد ہوں۔ تزویراتی مراکز ہونے کی وجہ سے حکمران کا انتہائی مفاد اس بات سے وابستہ تھا کہ یہ قلعے ان افراد کے ماتحت ہوں جن کی وفاداری شک و شبہ سے پاک ہو۔ خصوصاً کوہستانیوں اور کانڑا غوربند کے لوگوں پر اس سلسلہ میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس پالیسی کو اس لیے اپنایا گیا، تاکہ افسران بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے ساز باز نہ کرسکیں اور سپاہی اندرونی بغاوت کی صورت میں روایتی ڈلہ (دھڑا) معاملات سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے وفادار رہیں۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 97 تا 98 سے انتخاب)