عقیدۂ ختمِ نبوت، قرآنِ پاک کی 100 آیاتِ مبارکہ اور 210 احادیث سے ثابت ہے۔ پوری امتِ مسلمہ اس عقیدے پر متفق ہے اور یہی عقیدہ مسلمانوں کے ایمان کی اساس اور بنیاد ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختمِ نبوت پر ایمان، نجات و مغفرت، حصولِ جنت اور شفاعتِ محمدیؐ کے حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
منکرینِ ختم نبوتؐ کا فتنہ آپ کی حیاتِ طیبہ میں شروع ہوگیا تھا۔ جھوٹے مدعیانِ نبوت نے سر اُٹھایا اور کفر و ارتداد پھیلانے کی ناپاک کوشش کی، مگر صحابۂ کرام نے ان کا قلع قمع کیا۔ اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کوکیفرِ کردار تک پہنچاکر ہمیشہ کے لیے ان کو نشانِ عبرت بنا دیا۔
عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے جنگِ یمامہ میں 1200 صحابۂ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا۔ 19ویں صدی کے آخر میں بے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ ایک خود ساختہ نبوت ’’قادیانیت‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوا، جس کی تمام تر وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لیے وقف تھیں۔ انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی جس میں اُلجھ کر مسلمانوں کا دامنِ اتحاد تار تار ہوجائے۔ اس لیے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی۔ اس فرقہ کے مفادات بھی انگریز حکومت سے وابستہ تھے، اس لیے اس نے تاجِ برطانیہ کی بھرپور انداز میں حمایت کی۔ ملکۂ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے۔ حکومتِ برطانیہ کے عوام میں راہ ہمو ار کرنے کے لیے حرمتِ جہاد کا فتوا دیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے، تو علمائے کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلے میں میدانِ عمل میں نکلے۔
برصغیر پاک و ہند میں جب مرزا غلام احمد قادیانی آنجہانی ملعون نے اپنے خود ساختہ نبی ہونے کا اعلان کیا، تو علما و مشائخ نے اس فتنے کے سدباب کے لیے ہر میدان میں قادیانیت کا محاسبہ کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں 7 ستمبر وہ تاریخ ساز دن ہے، جب 1974ء میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے بحث و مباحثہ اور ہر پہلو پر مکمل غور و خوض کے بعد قادیانیوں، احمدیوں اور مرزائیوں کی حیثیت کا تعین کیا اور متفقہ طور پر اُنھیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
اس فیصلے کے بعد اکثر اسلامی ممالک نے یکے بعد دیگرے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا۔ اس فیصلے نے جہاں اہلِ پاکستان کے دینی جذبات کی مکمل ترجمانی کی، وہاں پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں پاکستان کی قدر کو بھی بڑھا دیا کہ پاکستان کے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں، مگر ختمِ نبوت پر کسی کو ڈاکا ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں دے سکتے۔
دشمنانِ اسلام کی جانب سے ہر دور میں مسلمانوں کو اسلام سے گم راہ کرنے کی کوششیں جاری رہی ہیں۔ دشمنوں کی ان سازشوں پر نگاہ رکھنے اور ان کی مسلمانانِ اسلام کو راہِ راست سے بھٹکانے کی گھناؤنی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر سال سات ستمبر کا دن یومِ تحفظ ختم نبوت کے طورپر منایا جاتا ہے۔ زندہ قومیں اس طرح کے تاریخ ساز اور تاب ناک ایام و لمحات کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں، بلکہ زندہ بھی رکھتی ہیں۔
امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’تصویر کا ایک رُخ یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی میں یہ کم زوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قد و قامت میں تناسب نہ تھا۔ اخلاق کا جنازہ تھا۔ کریکٹر کی موت تھی۔ سچ کبھی نہ بولتا تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔ بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور ٹوڈی تھا۔ تقریر و تحریر ایسی تھی کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی، لیکن مَیں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کم زوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قوا میں تناسب ہوتا،چھاتی45 انچ کی، بہادر بھی ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپیئر اور اُردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعوا کرتا، تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟ نہیں…… ہرگز نہیں! میاں، آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تختِ نبوت پر سج سکے اور تاجِ نبوت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے، تاج دارِ ختمِ نبوت محمدصلی اللہ علیہ و سلم، اللہ تعالا کے آخری نبی اور رسول ہیں۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔