تبصرہ نگار: منیر فراز
عقیلہ منصور جدون صاحبہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ کے فیس بُک گروپ کی نہایت مصروف ترجمہ نگار ہیں۔ انھوں نے بہت قلیل مدت میں فنِ ترجمہ نگاری پر دسترس حاصل کی اور کئی یادگار افسانے اور امریکی معاشرت کے کئی سماجی اور اہم سیاسی مضامین ترجمہ کرکے پڑھنے والوں تک پہنچائے۔
مجھے ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب مَیں نے مذکورہ فیس بُک گروپ میں اُن کے ترجمہ کیے گئے ابتدائی افسانے پڑھے اور آج اُن کے تراجم کی دوسری کتاب میرے ہاتھوں میں ہے۔ یہ عہد ساز روسی ادیب ٹالسٹائی کے افسانوں کے تراجم کا مجموعہ ہے، جسے ’’لیو ٹالسٹائی کی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ’’سٹی بک پوائنٹ کراچی‘‘ نے شائع کیا ہے۔
مَیں نے کتاب کے بیشتر افسانے مختلف اوقات میں مذکورہ فیس بک گروپ میں پڑھے تھے، جب وہ وہاں پوسٹ ہوتے رہے ہیں، لیکن اب ان افسانوں کو کتابی شکل میں دیکھ کر مزاج میں ٹالسٹائی کا اُسلوب رچ گیا ہے۔
کتاب میں ٹالسٹائی کے حالاتِ زندگی اور فن پر ایک مختصر مگر جامع مضمون بھی شامل کیا گیا ہے، جس کا مطالعہ ان افسانوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ٹالسٹائی ہمیشہ سے میرا پسندیدہ ادیب رہا ہے، لیکن مَیں نے روسی ادب میں ٹالسٹائی کو چیخوف اور گورکی کے بعد پڑھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ ٹالسٹائی کے افسانے مجھ پر کھلتے نہیں تھے۔ ٹالسٹائی کے افسانوں کا اِبلاغ اُس کی اپنی زندگی کی طرح پیچیدہ اور پُرپیچ ہوا کرتا تھا۔ ابتداً مَیں ٹالسٹائی کے کئی افسانے درمیان ہی میں چھوڑ دیتا تھا۔ رفتہ رفتہ مَیں نے محسوس کیا کہ ایک اچھا اور ذہین مترجم کہانی کی وہ تمام گرہیں کھول سکتا ہے، جو تخلیق کار کے اُسلوب کا حصہ ہوتی ہیں اور جو خود بخود اُس کی تحریروں میں آجاتی ہیں۔
ٹالسٹائی اب بھی مجھے پیچیدہ لگتا ہے۔ مجھے اُس کا ایک افسانہ ’’پیالہ‘‘ اپنے ماہنامہ مجلہ ’’ہوپ‘‘ میں شائع کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ یہ زندگی کے گہرے فلسفہ سے آراستہ انتہائی دل کش افسانہ ہے، جس میں ٹالسٹائی کے قلم کی رعنائیاں عروج پر نظر آتی ہیں۔
ٹالسٹائی سماج کے درمیان سے کوئی عام کردار اُٹھاتا ہے اور پھر زندگی کے گہرے فلسفے اور روحانی امتزاج کے ساتھ کہانی بُنتا ہے، اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے اور کہانی کو کوئی ڈرامائی رنگ دیے بغیر ایک ایسے موڑ پر چھوڑ دیتا ہے، جہاں کہانی ختم ہونے کے بعد دو تین پہلوؤں کو روشن کرتی نظر آتی ہے۔
ٹالسٹائی کی بعض کہانیوں کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے جن میں وہ متعدد کرداروں اور واقعات کے پھیلاو کے ساتھ ایک ایسی گہری اور پُرپیچ کہانی تخلیق کرتا ہے جس سے اُس کی ذہنی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
آس کی تحریروں کے یہ متفرق رنگ اور اُس کی ذہنی زرخیزی آپ کو اس کتاب میں جا بہ جا نظر آئے گی اور آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کوئی تخلیق کار زندگی کے ایسے پہلو کیسے دریافت کر لیتا ہے؟ پھر آپ پر کھلے گا کہ بڑا اور آفاقی ادب دراصل کیا ہے؟
عقیلہ منصور جدون نے ان تراجم میں پوری کوشش کی ہے کہ کہانی، اِبلاغ اور مکالمہ کو معیاری زبان کے ساتھ تکمیل کو پہنچائیں۔ انھوں نے کیوں کہ تسلسل کے ساتھ ٹالسٹائی کی بیشتر کہانیوں کے تراجم کیے ہیں، چناں چہ وہ ٹالسٹائی کے فنی محاسن سے بخوبی آگاہ ہیں، جس سے انھیں تراجم میں سہولت میسر ہوئی ہے۔
ترجمے کا معیار ایک طرف رکھیے، ایک اُلجھے ہوئے اُسلوب کے حامل اُلجھے ہوئے کہانی کار کی کہانیوں کو ترجمہ کے لیے منتخب کرنا ہی قابلِ تحسین عمل ہے۔ اس کے لیے مترجم کو نہ صرف ہر دو زبانوں پر عبور ہو، بلکہ وہ تخلیق کار کے گرد و پیش، سماجی پس منظر بلکہ اُس کے حالاتِ زندگی سے بھی آگاہ ہو۔
چناں چہ طے یہ پایا کہ عالمی ادب سے ٹالسٹائی، چیخوف یا دوستوفسکی یا سارتر وغیرہ کی تخلیقات کے بہتر تراجم کے لیے ضروری ہے کہ اُن کی زندگی کو بھی بہ غور پڑھا جائے۔
عقیلہ منصور جدون کے تراجم سے صاف جھلکتا ہے کہ وہ ٹالسٹائی کے حالاتِ زندگی اور اُس وقت کے روسی معاشرے کے خط و خال سے آگاہ ہیں۔ تبھی وہ ایسے کامیاب تراجم کر پائی ہیں۔
اِن تراجم میں زبان کا رچاو بھی ہے اور ایک عمدہ نثر کا حسن بھی۔ مترجم کے قلم میں کہیں رکاوٹ ہے نہ پڑھنے والے کو کوئی اُلجھن ہی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ کہیں کہیں رُک کر آپ ایک اچھے جملے کو دوبارہ پڑھنے لگتے ہیں۔
کتاب کے فلیپ اور آخری صفحات میں وہ مختصر تبصرے بھی شامل کیے گئے ہیں جو ان افسانوں پر پوسٹ کے دوران میں کیے گئے۔ یہ مستحسن اقدام ہے۔
کتاب کا سر ورق اور طباعت تسلی بخش ہے اور کتاب کے اندرونی صفحات کے حصہ اول میں لیو ٹالسٹائی جیسے عظیم قلم کار کے 17 خوب صورت افسانے اور حصۂ دوم میں ٹالسٹائی کے تین تراجم شامل کیے گئے ہیں۔
عقیلہ منصور جدون صاحبہ اس سے قبل ’’خدا کے نام خط‘‘ کے عنوان سے مختلف عالمی ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم کا مجموعہ بھی پیش کرچکی ہیں۔ یوں وہ اب ایک سینئر ترجمہ نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ چناں چہ اب ان کی ذمے داری بڑھ گئی ہے اور انھیں کسی نئے افسانے کے لیے اپنے ’’سینئر‘‘ ہونے کا پاس کرنا پڑے گا۔
’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ میں اُن کا اب تک کا یہ تعاون قابلِ ستایش ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔