قطعِ نظر اس بات کے کہ معترضین کیا کہتے ہیں…… اور مجھے کن القاب سے نوازتے ہیں……وہ جانے اور ان کا ضمیر!
میرے خیال میں سابقہ ریاستِ سوات کا نظام جس طرح 52 سال تک چلتا رہا، جس طرح اس سسٹم نے ارتقا کے مراحل طے کیے اور جو عین میچورٹی کی حالت میں زمین بوس کردیا گیا،اُس کی مثال برصغیر کی کسی نوابی ریاستوں میں نہیں ملتی۔
یہ نظام تقریباً روزانہ کی بنیاد پر تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہا۔ ہر نئی بات، نیا فرمان اس کی صورت کو مزید نکھارتا رہا۔
آج میں صرف سول اور عدالتی نظام کے چند پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا…… جو طویل بھی ہے اور مشکل بھی۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
سول انتظامیہ کا بنیادی یونٹ تحصیل دار ہوا کرتا تھا…… مگر جو فرائض اُسے تفویض کیے جاتے تھے، وہ ایک کثیر الجہت منصب تھا۔ شاہی فرامین پر اگر نظر ڈالی جائے، تو وہ اپنے یونٹ کا عدالتی افسر تھا۔ ریوینو کلکٹر تھا۔ لا اینڈ آرڈر کا ذمے دار تھا…… بلکہ اپنی حدود میں تعمیراتی کاموں کا معائینہ کرنا بھی اُس کے فرائض میں شامل تھا۔ محاصلات کی مقامی ضرورت سے بچ جانے کی صورت میں مرکزی خزانے کو رقم مع تفصیلِ صرف و آمد فراہم کرتا تھا۔
اس طرح اُس کو کسی بھی وقت سول ذمے داری سے سبک دوش کرکے فوج یا پولیس میں بھی فرائض کے لیے بھیج دیا جاتا تھا۔ مثلاً: عبدالستار خان (کوکارئی) تحصیل دار بھی رہے اور پولیس انسپکٹر بھی رہے۔
سرفراز خان تحصیل دار بھی رہے، کپتان بھی رہے اور کمانڈر بھی۔
محمد زبیر خان غوریجہ کے رہنے والے کو مَیں نے بہ حیثیتِ تحصیل دار ’’دبیر‘‘ میں دیکھا۔ بہ حیثیتِ صوبے دار میجر گاؤں میں دیکھا۔
چکیسر کے سیف الرحمان تحصیل دار تھے، لیکن ریٹائرمنٹ کے وقت صوبے دار میجر تھے۔
تحصیل دار کو اپنے ہیڈ کوارٹر میں رہایش، مسجد اور عملہ کے علاوہ گھریلو خدمت کے لیے دو اردلی ملتے تھے۔ اُس پر کئی پابندیاں بھی تھیں۔ وہ بغیر والی سوات کی اجازت کے کسی کی دعوت میں نہیں جاسکتے تھے۔ کسی سے موٹر گاڑی کے لیے بھی نہیں کَہ سکتے تھے۔ اس بارے میں تحریری فرامین ریکارڈ پر موجود ہیں۔
ریاست کے "Civil cum Judicial” ڈھانچے کا دوسرا سیٹ اَپ حاکم اور اس کے عملے پر مشتمل تھا۔ برسبیلِ تذکرہ، تحصیل کی سطح پر شرعی نظام بھی موجود تھا، جو وہ عام طور پر تین علمائے دین پر مشتمل ہوتا تھا…… جو فریقین کی رضامندی سے مقدمات کے شرعی قوانین کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔
چند تحصیلوں کو ملا کر حاکمی کا یونٹ بنتا تھا۔ مستقل حاکمی یونٹس درجِ ذیل تھے:
٭ بحرین۔
٭ مٹہ برسوات۔
٭ بابوزئی۔
٭پٹن۔
٭ چکیسر۔
٭ کبل۔
٭ ڈگر۔
٭ الپورئی۔
حاکم اپنی حدودِ عمل داری میں تحصیل داروں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنتا تھا۔ خود بھی مقدمات لے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اپنے علاقے کی حدود میں واقع سرکاری سکولوں، ہسپتالوں اور ریسٹ ہاؤسز وغیرہ کے عملے کو تنخواہیں بھی اس کے دفتر سے ادا کی جاتی تھیں۔ اگر حاکمی کے محاصلات ضرورت سے کم پڑتے، تو مرکزی خزانہ میں بِل دے کر پیسے لے جا سکتے تھے۔
حاکم اپنے علاقے میں ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کے لیے بھی ذمے دار تھا۔ وہ بھی زیرِ تعمیر ریاستی منصوبوں کی ہفتہ وار اور ماہ وار معائینے کا پابند تھا۔ اُس کی معاونت کے لیے بھی قاضی مقرر تھے۔ حاکم کے خلاف متعلقہ وزیر یا مشیر اپیل سن سکتے تھے۔
تحصیل دار کو ترقی ملتی، تو حاکم کے عہدے پر تعینات ہوجاتا۔ ایسی کوئی مثال تو نہیں ملتی کہ کوئی براہِ راست حاکم بھرتی ہوا ہو…… البتہ ’’آوٹ آف ٹرن پروموشن‘‘ کوئی انہونی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔
بعض تحصیل دار ریٹائرمنٹ تک تحصیل دار ہی رہے…… لیکن بعض "Lateral Induction” کے راستے فوج میں جاکر پروموشن حاصل کرلیتے،لیکن یہ سب حکم ران کی صواب دید پر منحصر تھا۔ اس کے لیے کوئی مخصوص قواعد نہیں تھے۔
اِدغام کے وقت بعض حاکم اور مشیر وغیرہ تعلیمی اسناد کی بنیاد پر صوبائی اداروں میں اہم عہدے حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
اب ہم ریاست کے عدالتی/ انتظامی ڈھانچے کے مرکز تک آگئے ہیں، مگر اس سے پہلے مناسب ہوگا کہ جہاں تک ممکن ہو کچھ تحصیلوں کا محلِ وقوع اور بعض شخصیات کا خصوصی ذکر ہوجائے، جو اس نظام سے وابستہ رہے اور نام ور ہوئے۔ موجودہ ضلع پٹن لوئر اور اَپر دونوں کا مرکزی مقام پٹن تھا۔ میری یادداشت کے مطابق ان مقامات پر تحصیلیں تھیں:
٭رانولیا۔
٭ دوبیر۔
٭ کندیا۔
٭ کرنگ۔ ججشوئی۔
٭ سیو۔
پٹن میں طویل دورانیے تک بہ حیثیتِ حاکم پٹن فرائض انجام دینے والے حاکم محمد عظیم حاکم صاحب تھے، جو قریباً 25 سال تک وہاں متعین رہے۔ اہلِ اباسندھ کوہستان اُن کو کسی قیمت پر جانے نہ دیتے۔ حتی کہ وہاں سے عمر رسیدگی کی وجہ سے ریٹائر ہوگئے۔اُن کا تعلق چوگا پورن سے تھا۔
موجودہ شانگلہ کی حدود کے اندر ان مقامات پر تحصیلیں تھیں:
٭ لیلونئی۔
٭ الپورئی۔
٭ کانا۔
٭ بشام۔
٭ پورن۔
٭ چکیسر۔
٭ مارتونگ۔
یہاں کی مختلف تحصیلوں میں جو نام ور افسر مختلف ادوار میں فرائضِ منصبی انجام دیتے رہے، اُن میں بخت افسر خان، شیر افضل خان، محمد شیریں، شیبر خان، فصیح اللسان، سید کریم خان اور محمد پرویش وغیرہ کے نام مجھے یاد ہیں۔
شیر افضل خان کادور تو بہت ہنگامہ خیز تھا، جب وہ چکیسر میں تھے۔ موصوف ڈگر، بونیر میں بھی حاکم رہ چکے تھے۔ ڈگر کی تاریخی ریسٹ ہاؤس ان کی نگرانی میں بنائی گئی تھی۔
وادی میں بہ شمول کالام ذیل میں دیے گئے مقامات پر تحصیل اور حاکمی تھی:
٭ کالام۔
٭ بحرین۔
٭ مدین۔
٭ فتح پور۔
٭ خوازہ خیلہ چارباغ۔
٭ مٹہ۔
٭ کبل۔
٭ بریکوٹ۔
٭ سیدو۔
٭ اور کسی زمانے میں شموزئی۔
مختلف ادوار میں مرکز کو چھوڑ کے یہ شخصیات مختلف مقامات پر ڈیوٹی دے چکی ہیں: عجب خان، محمد مجید خان، بہروز خان، سرفراز خان، محمد شیریں، محمد میاں، بحر الدین، عزیز الرحمان، شیر شاہ خان، شریف خان، فضل ودود، عبدالاحد، باچا سید، عبداللہ شاہ، سید غفور شاہ، حسین شاہ اور سید امیر شاہ کے نام مجھے یاد ہیں۔
موجودہ ضلع بونیر کا مرکز ڈگر تھا جس میں پہلے حاکم اور بعد میں مشیر پورے بونیر کا عدالتی اور انتظامی سربراہ تھا۔ تحصیلیں کچھ ان مقامات پر تھیں:
٭ سلارزئی۔
٭ گدیزئی۔
٭ڈگر۔
٭ گاگرہ۔
٭ چغرزئی۔
٭ چملہ۔
٭ امازئی۔
٭ طوطالئی خدوخیل۔
پہلے ڈگر میں حاکم پورے بونیر کا انتظامی عدالتی افسر تھا، بعد میں یہاں مشیر تعینات رہا…… جن میں امیرسید جو بعد میں ریاست کے وزیر ملک بنے اور شیر بہادر خان مشیر فرائض انجام دے چکے ہیں…… لیکن سب سے لیجنڈری حاکم اوڈیگرام کے شیر افضل خان تھے، جس کی نگرانی میں گاگرہ کی عمارات اور ڈگر کا تاریخی ریسٹ ہاؤس تعمیر ہوا۔
دوسری مشہور شخصیت عزیزالرحمان کی تھی۔ موصوف ریاست کے تقریباً تمام اہم مقامات پر حاکم رہے، جن میں چکیسر، الپورئی، پٹن، مٹہ، کبل اور سیدو شریف شامل ہیں۔
ریاست کے سول/ جوڈیشل تنظیم کے بارے میں بحث کے آخری نقطے یعنی مرکزی سیٹ اپ پر تفصیلی گفت گو سے پہلے یہ عرض ضرور کروں گاکہ لفظ مشیر کو مشاورت کے معنی میں نہ لیا جائے۔یہ رینک پہلے حاکمِ اعلا کے نام سے متعارف کیا گیا۔بعد میں نایب وزیر کہلایا گیا، لیکن مختصر مدت کے اندر اندر مشیر کا رینک متعارف کیا گیا۔ یہ ایک "Judicial / civil administrative” پوسٹ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے:
٭ مشیر کوز سوات۔
٭ مشیر برسوات۔
٭ مشیر بونیر جو ڈگر میں مستقل طور پر قیام پذیر تھا۔
٭ مشیر دفتر حضور( یعنی سیف الملوک مشیر صاحب)
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ہر مشیر اپنے "Jurisdection” کے لیے ’’اپیلنٹ کورٹ‘‘ تھا۔ وہ از خود بھی فیصلے لے سکتا تھا۔ یہاں پر ہر مشیر کے لیے الگ معاون قاضی نہیں تھے…… بلکہ قاضی القضا کی سربراہی میں متعدد قاضیوں پر مشتمل شرعی عدالت تھی، جو ریفر کیے گئے مقدمات کا شرع کے مطابق فیصلہ کرتے۔
ایک ضروری بات جو رہ گئی، وہ فیصلہ جات رجسٹر ہیں۔ ہر عامل اپنے دیے ہوئے فیصلے کا اندراج مع دستخط ایک رجسٹر میں بہ طورِ دستاویزی ریکارڈ کرتا، جو آج بھی ضلعی دفاتر میں حوالہ جات و تحقیق کے لئے پڑے ہیں۔ مثلا: ’’کتاب فیصلہ جات حضور‘‘، ’’کتاب فیصلہ جات وزیر مال‘‘، ’’کتاب فیصلہ جات وزیر ملک‘‘، ’’کتاب فیصلہ جات کشور خان مشیر‘‘، ’’کتاب فیصلہ جات محمد مجید خان مشیر‘‘، ’’فیصلہ جات محکمہ قضا‘‘ وغیرہ۔
مزید براں سپہ سالار صاحب سید بادشاہ گل علاقہ کوہستاں کے مقدمات بھی سنتے تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپہ سالار کا عہدہ ختم کردیا گیا۔
سیدوشریف میں تعینات مشیر اپنی حدود میں قصاص شدہ مجرموں کے آخری لمحات کی نگرانی بھی کرتے۔ ان کی معاونت کے لیے ڈاکٹر بھی موجود ہوتے، جو قصاص شدہ کی موت کی تصدیق کرتے ۔
ریاست کے وزیرِ مال بھی بعض مخصوص تحصیلوں کے مقدمات میں اپیلیں سنتے تھے۔ ان تمام مذکورہ عدالتی حکام کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں حکم رانِ ریاست خود سنتے تھے۔ اُن کی حیثیت ایک ایسی سپریم کورٹ کی تھی، جس کے فیصلوں کے خلاف اپیل یا نظرِ ثانی کا انحصار بھی ان پر تھا۔
اگر کوئی ریاستی باشندہ اپنا مقدمہ براہِ راست حکم ران کے سامنے رکھنا چاہتا، تو بھی اسے حق حاصل تھا، لیکن مقدمہ بازی کا رجحان لوگوں میں کم تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔