چار اکتوبر 2017ء کو جھیل مگس (سندھ) کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پولیس کے سپاہی نے خودکش بمبار کو دبوچا، تو اُس نے خودکش دھماکا کیا۔ پولیس مع دوسرے دو درجن افراد کے شہید ہوگیا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پولیس کے، فوج کے، ملیشا اور رینجرز کے سردار اور جوان شہادت پاچکے ہیں۔ درجنوں بموں سے اڑا دیئے گئے ہیں اور بہت ساروں نے وطن عزیز کے دفاع کی خاطر دشمنوں کے ہاتھوں اپنے گلے کٹوا دیئے ہیں لیکن اپنے فرائض پر آنچ نہیں آنے دی۔ مسلح اداروں کے باوردی اور بے وردی آفیسرز اور جوان ہر وقت سر ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ مشکل ترین حالات میں جب دوسرے لوگ اور محکمے ناکام ہوجاتے ہیں، تو آگے آکر حالات کو سدھارتے ہیں۔ اور یہ زمانۂ قدیم سے ایک تسلیم شدہ طریقہ ہے کہ جب مسلح دستے یا اس کے افراد قومی فرائض کے لیے متحرک ہوتے ہیں، تو پھر عام (روٹین) والے قواعد و قوانین منجمد ہوجاتے ہیں۔
غالباً تین یا چار اکتوبر ہی کو پشاور میں ٹریفک پر مامور ایک سپاہی نے ایک ایم پی اے صاحب کا اُس وقت چالان کر دیا جب اُن کو بلٹ باندھے بغیر گاڑی چلاتے ہوئے پایا۔ ایم پی اے صاحب بھی لائقِ ستائش ہیں کہ انہوں نے بغیر تڑی دکھائے دو سو روپیہ جرمانہ ادا کیا۔ مینگورہ میں، مَیں نے کئی بار عام قسم کے ڈرائیوروں کو پولیس سے الجھتے اور اُسے دھمکیاں دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ غالباً 1966ء کا ہمارا اپنا چشم دید واقعہ ہے۔ عصر کے وقت سیدوشریف کی طرف سے آنے والی والئی سوات کی موٹر کو پولیس کے جوان نے (گراسی گراؤنڈ اسلامی مدرسہ کے پاس) رُکنے کا اشارہ کیا۔ کیوں کہ مینگورہ کی طرف سے والئی سوات کے والد صاحب کی گاڑی آرہی تھی۔ گہرائی میں ہونے کی وجہ سے وہ والئی سوات کے ڈرائیور سے اوجھل تھی۔ والی صاحب کی کار سکون کے ساتھ سڑک کنارے رُک گئی۔ جونہی بادشاہ صاحب کی گاڑی گزر گئی، سپاہی نے اُسے جانے کا اشارہ دیا۔ سنا تھا کہ والئی سوات نے اُس سپاہی کو اُس کی بیدار مغزی اور قوت فیصلہ پر انعام دیا تھا۔

دو اکتوبر 2017ء کو معزول وزیراعظم نواز شریف اپنے اوپر لگے مختلف الزامات کے سلسلے میں قومی احتساب کی عدالت میں گئے تھے۔ حسب توقع اُس کے وفاداروں کی ایک فوج وہاں پہنچی۔ اُن میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی تھے۔ دوسرے بن بلائے لوگوں کے ساتھ رینجرز کے کسی سپاہی نے اُن کو بھی عدالت کے اندر جانے سے روک دیا۔ کیوں کہ اُسے یہی حکم ملا ہوگا کہ غیر متعلقہ اشخاص کو آنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ویسے تو احسن اقبال ہمارے خیال میں ایک عمدہ آدمی اور نواز حکومت کی قد آور شخصیت ہیں، لیکن انسان ہیں۔ طیش میں انگریزی زبان میں وہاں پر موجود ملازمین پر برس پڑے۔ جیسا کہ وہ سب انگریز دور کے گورے سپاہی ہوں۔ غصے میں فرمایا: ’’پاکستان بنانا ری پبلک نہیں رینجرز نے کیسے ٹیک اوور کیا۔ ایک ریاست کے اندر دو ریاستیں نہیں چل سکتیں۔ کٹھ پتلی وزیر نہیں ہوں گا۔ مستعفی ہوجاؤں گا۔ فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی تشکیل۔ 24گھنٹے میں رپورٹ طلب وغیرہ وغیرہ۔ (روزنامہ آج پشاور تین اکتوبر 2017ء) دفعتاً مجھے کئی سال قبل اسی جماعت کا سپریم کورٹ پر حملہ یاد آیا۔

وزیر داخلہ احسن اقبال کی فائل فوٹو (Photo: dailytimes.com.pk)

احسن اقبال جیسے پڑھے لکھے اور سنجیدہ وزیر کے منھ سے ایسی باتیں اچھی نہ تھیں، لیکن یہ بر سر اقتدار طبقے کی مجموعی رویے کی غماز ضرور تھیں۔ سپریم کورٹ میں جب سے مقدمہ شروع ہوا ہے، بر سر اقتدار جماعت کے بعض کے روئیوں سے بہت سے راز آشکارا ہوگئے ہیں اور ہمیں یہ یقین ہوگیا ہے کہ ہمارے بعض حکمران، حکمرانی کے قابل ہی نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر داخلہ صاحب اپنے ما تحت سپاہیوں اور افسروں کو شاباش اور انعامات دیتے کہ انہوں نے خود ایک نازک موقعے کا احساس کیا اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کی از خود عملی منصوبہ بندی کی۔ لیکن الٹا یہ پوچھا گیا کہ رینجرز نے کس طرح ٹیک اُوور کیا؟ حالاں کہ وزیر صاحب کو معلوم ہے کہ سرکاری افسران کے ساتھ یہ اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ خود موقع و محل کے مطابق فیصلے کرسکتے ہیں۔ ان کو ’’ڈس کر شنری پاورز‘‘ کہتے ہیں۔ ہر معاملے کے لیے نہ خطوط لکھے جاتے ہیں اور نہ تحریری اجازت نامہ کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصاً نازک صورتحال کے وقت۔ دوسرے زاوئیے سے دیکھیں، تو اگر رینجرز بغیر حکومت کی اجازت سے عدالت اور سابقہ وزیراعظم کی حفاظت کے لیے گئے تھے، تو یہ احسن اقبال صاحب بھی تو کسی کی اجازت کے بغیر دفتری امور چھوڑ کر عدالت کے احاطے میں پہنچے تھے۔ یہ تو اُن کے فرائض منصبی میں شامل کام نہیں تھا۔ اگر اُن کو وہاں کچھ واقع ہوجاتا، تو کس کی ذمہ داری بنتی؟
ہمارے ملک کی دوسری وزارتوں میں سب سے زیادہ ذمہ دار وزارت امورِ داخلہ والی ہے۔ پاکستان کے اندر آنے والی تمام خطرناک لوگوں اور خطرناک اشیا کی آمد کی بندش کی ذمہ داری اسی احسن اقبال صاحب والی وزارت کی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن (پاٹا) کو بارود کا ڈھیر بنانے اور یہاں کی شریف النسل اقوام کو قوانین سے محروم رکھنے کا جرم آپ ہی کی وزارت کا ہے۔ پاکستان کے اس اشراف والے علاقے میں کسٹم چور، چابی چور اور کٹ گاڑیوں کی بارش ہزار ہا بے نمبر پلیٹ کی موٹر سائیکلیں، اُن کے لیے عظیم مقدار میں سمگل ہوکر آنے والا سپیئر پارٹس وغیرہ آپ ہی کی وزارت کی مہربانی کی وجہ سے ہے۔ آپ ہی کی وزارت کی ناکامی کی وجہ سے سنسناتی گولیوں کو فوج اور پولیس وغیرہ اور عوام اپنے سینوں پر روک رہے ہیں۔ ریاست کے اندر بے شمار ریاستوں کی پیدائش وزارت داخلہ ہی کی ناکامیوں کی وجہ سے ہے۔
چوں کہ پاکستان کی مشکلات کا زیادہ تر حصہ وزارتِ داخلہ کی غفلتوں اور کرپٹ و کمزور بلکہ ناکام پالیسیوں اور طریقہ ہائے کار کی وجہ سے ہے اس لیے ہم اُمید کرتے ہیں کہ مرکزی وزیر داخلہ احسن اقبال صاحب استعفوں والی بچکانہ باتیں چھوڑدیں گے۔ خدا نے اُن کو بڑی عزت اور بڑی طاقت دی ہے۔ سابقہ اعلیٰ بیوروکریٹس، جرنلز، ججز، جرنلسٹس کی مختلف ٹیمیں بنواکر اُن کو ضروری سہولیات مہیا کرکے ہر قسم کی خرابیوں کو معلوم کرواکے اُن کے خاتمے کے لیے قوانین، پالیسیاں اور نئے طریقہ ہائے کار بنوائیں گے۔ یہ کام اُن کے دورِ اقتدار میں ہوسکتا ہے۔ جونیئر ملازمین کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔مرکزی وزیر داخلہ کافی سے زیادہ مثبت تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔

…………………………

لفظونہ میڈیا کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔