قوموں کے عروج و زوال میں فکری و نظریاتی آسودگی اہم کردار اداکرتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کا ترقی کی جانب سفر یک دم شروع نہیں ہوتا۔ اس کیلئے صدیوں کی محنتِ شاقہ درکار ہوتی ہے۔ عام فرد سے لے کر سائنسدانوں اور فلسفیوں نے اپنے اپنے طور پر خوب محنت کی ہوتی ہے۔ حکومت اور ریاست ان کیلئے مناسب ڈائریکشن اور منزل متعین کرکے اس سارے عمل کو سہل اورآسان بناتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کا المیہ الگ ہے۔ یہاں ترقی یافتہ اقوام کی ریشہ دوانیوں او ر ہماری علمی کج رویوں نے ہمیں زندگی میں ترقی اور کامیابی سے پرے دکھیل دیا ہے۔ دراصل ہماری مجموعی دانش مہذب اقوام کی بہ نسبت کافی حد تک پسماندہ ہوچکی ہے۔ہماری ترجیحات اور منزل کے تعین میں خامیاں موجود ہیں۔ اس لئے ہم من حیث القوم ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں۔ فلسفیانہ مباحث اور سائنسی اقدار کے تصور اور مکالمہ کی جگہ تنگ نظر تصورات نے لی ہے۔ ہمارامذہبی بیانیہ، فکر اور جدید بدلتی عالمی دنیا کے دور رس ٹیکنالوجیکل ترقی سے موازنہ ممکن نہیں رہا۔ اصلاح پسندی اور ترقی کی باتیں خواب و خیال سی نظر آتی ہیں۔ ہم کسی بھی مکتبہ فکر کا مذہبی عالم تو بن سکتے ہیں لیکن سائنسدان اور فلسفیانہ عالم نہیں۔ اکا دکا علما، دانشوروں، سائنسدانوں اور فلسفیوں کا یہاں پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے۔ قابل اہلِ علم حضرات کو اس عمومی کج روی اور نظریاتی ابہام میں شامل نہیں کیا جاسکتا، ان کو استثنا حاصل ہے۔
جدید دنیا کے معروضی حالات میں وسائل اور مسائل دو چند ہوگئے ہیں بلکہ ان میں ترقی یافتہ ممالک کا ترقی پذیر سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اب نئے عالمی حالات کے تناظر میں قوم میں ایک نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ قوم ان مسائل کو سمجھ کر ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ مقابلے کی اہل ہوسکے۔ مقابلے کی بات میں اس لئے کر رہا ہوں، تاکہ اُن وجوہ پر بات ہو سکے جو ہمارے زوال کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ دیگر وجوہات سے قطعہ نظر لیکن ہماری قدامت پرستانہ اور رجعت پسندانہ خیالات ناکامی کی اصل وجوہات میں سے ہیں۔ اگر چہ آگاہی ممکن ہے اور اس کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات ہوسکتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مختلف اقوام اور اس کے رجحانات، مذہبی تفرقہ بندی، دہشت گردی اور شدت پسندی کے مسائل نے ہمیں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ عالی دماغ ذہنوں کو مغرب اپنی طرف کھینچتا ہے۔ قابل اور اہل افراد کا جینا یہاں حرام کیا جا چکا ہے۔ دراصل اہلِ علم کے قدردان بہت کم ہیں۔ حکومتی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اورنہ ہی کوئی نوازش، تعریف اور انعام ہی دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے دانشمند افراد کی اکثریت کو شہرت اور مال و جائداد سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ با صلاحیت افراد انسانیت کی بھلائی کی خاطر غور وفکر کرتے ہیں۔ ایسے افراد میں سستی شہرت کے حامل کم ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اصلاح پسند اور سائنسی رویہ کے حامل افراددنیا کو نئی سائنس اس وقت تک نہیں دے سکتے، جب تک وہ اپنے علم کو انسانیت کی بقا کیلئے کام میں نہیں لاتے۔

یونیورسٹیز میں حکومتی سطح پر اقدامات اور کٹیگرائزیشن کا عمل ہی اس کا دیرپا علاج فراہم کرسکتا ہے۔ یعنی قابل افراد میں بھی اوسط اور قابل کا امتیاز رکھا جانا علم کی قدردانی کے مماثل ہے۔ اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ معاشرے ترقی کے اہداف کیسے سر کرسکتے ہیں؟
مروجہ استحصالی اور طبقاتی نظام میں حوسِ زر، سستی شہرت اور ذاتی فوائد کے حصول کیلئے دوسرے کے حقوق کو غصب کرکے ترقی کیا کرتے ہیں، لیکن یہ ترقی پائیدار ثابت نہیں ہوتی۔ ترقی دراصل وہ ہوتی ہے جس میں معاشرے کو باالعموم اور انسانیت کو باالخصوص اس کے ثمرات پہنچتے ہوں۔ ہمارا نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس میں صرف ذاتی فوائد کی خاطر انسان دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ ذاتی منفعت ہی وہ جذبۂ محرکہ ہوتا ہے جس سے بندہ مشکل سے مشکل کام کیلئے حامی بھرتا ہے۔ اسلئے ہمارے دین اسلام میں دوسروں کے ساتھ نیکی کرنے کا اجر و ثواب ملتا ہے اور انہیں اس جہاں اور اگلے جہاں میں نیکی کے ثمرات پہنچنے کا یقین ہوتا ہے۔
دراصل ریاست ماں باپ اور بڑوں کی صورت اور کردار کی حامل ہوتی ہے اور اس کا فریضہ ہی یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میں ٹھوس نتائج کے حامل غور و فکر اور نظریات کو ترقی دے کر عمومی فلاح کے ساتھ ترجیحات اور تعین کرکے منزل کی کھوج لگاتے ہوئے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اس قسم کی ترقی کیلئے ریاست وسائل، کتابیں، درسگاہیں اور تجربہ گاہیں فراہم کرتی ہے۔

میری نظر میں قومی ترقی وہ ہوتی ہے جس میں عام فرد کی طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے۔ جہاں عام افراد کو ایجادات اور ترقی کو زیر استعمال لانے کا ہنر بہم پہنچانے کا قرینہ آتا ہو۔ ترقی وہ ہوتی ہے جس میں افراد کے ذہنی ساخت میں جدید بدلتے ملکی،عالمی حالات کے ساتھ سوچ اور فکر میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہوں۔اب ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ لوگوں کی طرزِ زندگی میں تو کافی تبدیلی آئی ہے، تو جواباً عرض ہے کہ ہاں تبدیلی آئی ہے لیکن ہماری تخلیق اور تحقیق سے نہیں بلکہ دوسروں کی تخلیق اور تحقیق سے ہم استفادہ کر رہے ہیں۔ سر سری طور پر نظر دوڑایئے، تو پتا چل جائے گا کہ اس میں ہماری ایجادات اور تخلیق کا کتنا عمل دخل ہے؟ مثلاً صحت، تعلیم، ٹیکنالوجی، جدید مشینی آلات، جہاز رانی کو ہی لے لیجئے۔ یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ بعض چیزیں تو ہم خود بنا رہے ہیں اور بیچ رہے ہیں، تو بھئی، اصل چیز تو دوسروں نے بنائی ہے ناں۔ آپ نے یا تو قرض اور امداد لی ہے اور یا دوسروں سے نقل کی ہے۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا ۔ ہم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور یہی وسائل حکومتی تعاون کے بغیر حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
ترقی وہاں ہوتی ہے جہاں پر علم کی قدر کی جاتی ہو اور عالم کو معاشرہ عزت اور مرتبہ دینے کا سلیقہ جانتا ہو اور یہ سب کچھ طبقاتی نظام کو ختم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لئے کہ معاشرے میں کثیر تعداد غربا کی ہے اوراشرافیہ یعنی مالداروں کاکام تجربات اورآسانیاں دلانا ہر گز نہیں بلکہ وہ تو مال و دولت اور سوچ و فکر کو ماوف کرنے کے طریقے سوچتے ہیں۔
……………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔