چڑھتے سورج کی سرزمین، دید و شنید (تیسرا حصہ)

چوں کہ میں ایشیا لیڈر فلیو پروگرام 2017ء میں ایشیا کے لیڈر کے طور پر منتخب ہوا تھا اور ہمارا قیام انٹرنیشنل ہاؤس آف جاپان میں تھا، اس لئے 11 ستمبر کو ہمارے دو مہینوں پر محیط پروگرام کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوا۔ دن کے تین بجے آئی ہاؤس کے سمینار ہال نمبر 404 میں ہمارا تعارفی سیشن منعقد ہوا جس میں پروگرام کے منتظمین اور تمام سات فیلوز کے ساتھ پہلی ملاقات اور تعارف کرنا تھا۔

آئی ہاؤس میں جاری بحث و مباحثے کا منظر (فوٹو لکھاری)

ان سات دانشور فیلوز میں ایک خاتون’’ہتانو آیاکو‘‘ جاپان سے تھی جو روایتی جاپانی شکل یعنی چوڑے چہرے، جناتی آنکھوں والی اور جوانی سے بھرپور خاتون تھی۔ وہ زیادہ تر اپنے کام میں مگن، ہلتی جلتی یا رقص کرتے ہوئی اور گن گناتے ہوئی چلتی تھی۔ وہ پی ایچ ڈی کی طالبہ تھی اور اے ایل ایف پی میں اس کا موضوع جاپان میں ’’نفرت انگیز تقریر‘‘ تھا۔ "آیاکو” کی شخصیت کے بارے میں بعد میں تفصیل سے بات ہوگی۔ دوسری خاتون پروفیسر "سمیتا پاٹیل” ہندوستان سے تھی جو چھوٹی قد اور درمیانی عمر کی خاتون تھی جس میں استادوں والی تمام عادتیں موجود تھیں۔ وہ بہت جلدی جلدی باتیں کرتی تھی اور جتنا تیز اس کا منھ چلتا تھا، اتنا ہی تیزوہ ہاتھوں کو ہلاتی رہتی تھی۔ گویا یوں لگتا تھا کہ وہ بیک وقت منھ اور ہاتھوں سے بات کرتی تھی۔ پروفیسر سمیتا کا موضوع ہندوستان میں دلت خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں تھا۔ تیسرا فیلو پروفیسر "سودیرمان ناصر” عرف سودی انڈونیشیا سے تھا جو کہ انڈونیشیا کی ایک یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ فیکلٹی میں سنیئر لیکچرر اور محقق تھا۔ وہ چھوٹے قد کا موٹا آدمی تھا جو انتہائی ملنسار اور ہنس مکھ تھا۔ اس کا موضوع انڈونیشیا میں غریب نوجوان نسل میں ایڈز کے پھیلاؤ بارے تھا۔ چوتھا فیلو پروفیسر "پین تھن دُک” ویتنام سے تھا جو ہنوئی یونیورسٹی کے مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم، بینکنگ اکیڈمی کا ڈین تھا۔ وہ بھی ملنسار اور دوستانہ آدمی تھا۔ اس کا موضوع بزنس پراسس مینجمنٹ، ای بنکنگ، ای لرننگ اور بگ ڈیٹا تھا۔ پانچواں فیلو "سروج سری سائی” تھاجس کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا اورآسیان سیکٹریٹ کا ہیڈ تھا۔ اس کا موضوع ماحولیاتی تبدیلی اور آفات میں تخفیف تھا۔ ہماری چھٹی فیلو "وانگ شین” چین سے تھی جو صحافی تھی اور چین میں ایک اخبار کی ملٹی میڈیا سنٹر کی ڈپٹی ڈائریکٹر تھی۔ وہ ایک بالکل روائتی چینی خاتون تھی جس کی آنکھیں چھوٹی اور ماتھا چوڑا تھا۔ وہ مردو ں میں دلچسپی لیتی تھی اور اکثر و بیشتر اپنے آئیڈیل مرد کے بارے میں باتیں بھی کرتی تھی۔ اس کا موضوع چین میں پرنٹ میڈیا کے زوال پر تھا۔ اس پروگرام کا ساتواں فیلو میں تھا اور میرا موضوع ثقافتی ورثہ، ایشیائی ممالک کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا مجاز تھا۔ میں اے ایل ایف پی کے تمام فیلوز میں سب سے زیادہ باتیں اور گپ شپ لگاتا تھا۔ ہم ساتوں فیلوز کو اگلے دو مہینے مختلف موضوعات پر سمینار، بحث و مباحثہ، سیروتفریح اور دوروں میں مشغول ہونا تھا اور ان عوامل کو تلاشنا تھا جو ایشیا میں یکساں ہوں اور جن سے تمام ایشیا میں ہم آہنگی، باہمی اعتماد، دوستی، بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کے عوامل ڈھونڈنا اور اختلافات، عدم برداشت اور جاہلیت کو ختم کرنے کی فضا بنانا تھا، تاکہ ایشیا میں موجود متنوع اقوام کو ایک لڑی میں پرونے کے لئے راہ ہموار کرسکیں۔

آئی ہاوس جاپان (فوٹو لکھاری)

میں یہاں آئی ہاؤس کے اے ایل ایف پی سیکٹریٹ کے سٹاف کا ذکر لازمی سمجھتا ہوں۔ اے ایل ایف پی سیکٹریٹ میں موجودہ طور پر تین ملازمین ہیں جن میں ’جونکوایکاڈا‘ ہے جو عہدے میں پروگرام کو آرڈی نیٹر ہے، وہ پینسٹھ سالہ سنجیدہ خاتون ہے۔ اس کے بعد’کاوری فوجی ساکی‘ ہے جو ایک دلکش اور فیشن ایبل خاتون ہے اور اسسٹنٹ پروگرام کوآڈی نیٹر ہے۔ تیسری ’کاورو ہوشینو‘ ہے جس کا عہدہ پروگرام اسسٹنٹ کا ہے، چستی سے ہر کام کرنے کی عادی ہے اور زیادہ تر فیلوز سے رابطے رکھنا ان کا کام ہوتا ہے۔ تینوں افراد پر مشتمل اے ایل ایف پی کے یہ ملازمین اتنہائی پروفیشنل اور اپنے کام میں ماہر ہیں۔ بڑی سنجیدگی اور خندہ پیشانی سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔ان کے علاوہ ’ایسامو مارویاما‘ جو کہ انٹرنیشنل ہاؤس آف جاپان کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر ہیں، بھی ہمارے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں شا مل رہے۔ وہ لمبے چوڑے جاپانی مرد ہیں جو بااخلاق اور اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ جاپان فاؤنڈیشن سے ’متسوئی یوکی‘ جو کہ سنیئر آفیسر ہے اور ’کوجی ساتو‘ جو کہ جاپان فاؤنڈیشن کے ایشیا سنٹر میں آرٹس، کلچراور ایکسچینج سیکشن کے ڈائریکٹر ہیں، بھی وقتاً فوقتاً ہماری سرگرمیوں میں ہمراہ رہا۔آئندہ دو مہینوں میں ہم سب نے ایک خوشگوار خاندان کی طرح خوش اسلوبی کیساتھ کام بھی کیا، اور خوب گپ شپ اور قہقہے بھی لگائے۔ ہمارا تعارفی سیشن خوشگوار انداز میں گزرا جس میں ہمیں بتایا گیا کہ زیرِ زمین سیکشن کے ایک ہال میں شام 6:30 کو ہمارا استقبالیہ ہے اور اس کے فوراً بعد ڈنر رکھا گیا ہے۔ استقبالیہ کا مقصد ہمیں جاپان کے مختلف مکاتب فکر سے ملوانا اور آگاہی دلانا ہے۔ ہم صحیح وقت پر آئی ہاؤس کے زیر زمین سیکشن کے ایک بڑے ہال میں پہنچے، تو وہاں پر چند مہمان پہلے سے موجود تھے۔ ہم جب جاپان نہیں پہنچے تھے، تو ہم سے جاپان میں ہمارے جاننے والے دوست اور احباب کے نام اوران کے پتوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا، تاکہ انہیں بھی استقبالیہ پروگرام میں مدعو کیا جاسکے۔ تاہم میرے ذہن میں ایسا کوئی نام نہیں تھا، اس لئے میں نے انہیں کسی کا نام نہیں دیا تھا۔ استقبالیہ کیلئے جاپان کے سکالرز اور پروفیسرز کے علاوہ منسٹرز، تمام سات فیلوز کے سفارت خانوں کے اہلکار اور سماجی کارکنوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا اور ان تمام فیلوز کے پروفائل بھی بھیج دئیے گئے تھے۔ یہاں مختلف لوگوں سے بات چیت کے دوران میں مجھے پاکستان کے بارے میں ایک ہی تاثر ملا اور وہ دہشت گردی کا تھا۔ یہاں سارے لوگ مجھ سے پاکستان میں دہشت گردی کا ہی پوچھتے تھے اور میں حیران تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے علاوہ بہت ساری اچھی چیزیں بھی ہیں، پر اس کے بارے میں یہ لوگ نہیں جانتے۔ خیر، ٹھیک 6:30 کو پروگرام شروع ہوا اور مختصر استقبالیہ الفاظ کے بعد ہر ایک فیلو کواپنے ملک اور اپنے موضوع کے بارے میں چند الفاظ بولنے کیلئے مائک پر بلایا گیا۔ میرا دوسرا نمبر تھا، جب میں مائیک کے سامنے کھڑا ہوا، تو میں نے مخاطب ہو کر کہا کہ میں آج دہشت گردی سے متاثرہ ملک پاکستان سے آپ کے سامنے مخاطب نہیں ہوں بلکہ ایک ایسے ملک کے نمائندے کی حیثیت سے مخاطب ہوں جو قدیم تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے اور جہاں سندہ اور مہرگڑہ کی تہذیبوں کے علاوہ شہرہ آفاق گندھارا تہذیب نے بھی جنم لیا اور دوام پایا ہے۔ گندھار ا تہذیب اور پھر فن گندھارا کی پوری دنیا میں جتنی اہمیت ہے، یہ کسی سے مخفی نہیں۔ میں نے انہیں ادھیانہ یعنی سوات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ سوات جہاں قدرتی حسن کی وجہ سے ایشیا کا سویٹزرلینڈ کہلاتا ہے، تو یہاں کی تہذیبی قدامت بھی پانچ ہزار سال سے بڑھ کر ہے۔ یہاں نہ صرف بد ھ مت اپنے بام عروج کو پہنچا بلکہ بدھ مت سے قبل بھی عظیم اقوام نے زندگی گزاری اور اپنے آثار چھوڑے۔ یہاں اگر ایک طرف آشوکا کے دور کے شاہی سٹوپے اور خانقاہیں ہیں، تو دوسری طرف یہاں سکندر مقدونیا کا شہر بازیرہ اور اوڈی حکمرانوں کا اوڈیگرام بھی ہے، یہاں اگر بدھ مت دور میں مقدس پہاڑ مانکیال چوٹی ہے، تو یہاں قدیم مذاہب کی سب سے مقدس چوٹی ایلم بھی اپنے رعب و دبدبہ کیساتھ ہزاروں سال سے سینہ تانے کھڑا ہے۔ میں نے سب کو دعوت دی کہ آپ آئیں اور یہاں کی حیرت انگیز خوبصورتی کے علاوہ یہاں کی تہذیبی دنیا کی سیر بھی کریں۔ میں نے دعوے سے کہا کہ ان کی آمد پر وہ کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ ہال میں موجود تمام لوگوں نے بھر پور تالیوں سے میری حوصلہ افزائی کی اور میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اجازت لی۔ یوں تمام فیلوز نے اپنے اپنے ملک اور اپنے موضوعات کا تعارف کیا۔ تعارف کے بعد منتظمین نے کھانا کھانے اور گھل مل جانے کی دعوت دی۔ یوں ہم کھانے پر ٹوٹ پڑے اور ساتھ ہی تعمیری ملاقاتوں اور تبادلہ خیالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی سفارت خانے سے مرزا سلمان بیگ صاحب جو ڈپٹی سفیر ہیں، تشریف لائے تھے، جن سے گپ شپ کے علاوہ ملک کے حالات حاضرہ پر بات چیت ہوئی۔

آئی ہاوس جاپان کا دوسرا منظر (فوٹو لکھاری)

اسی دوران میں مجھ سے چند یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان ملے اور مجھے اپنی یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کی دعوت بھی دی۔ (جاری ہے)

…………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔