امریکہ سے ناراضگی کیوں؟

23 اگست 2017ء کے اخبارات اور میڈیا کے برقی ذرائع نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ کے اُن تھپڑوں کو شائع کیا تھا جو اُس نے بر صغیر کی صورتحال پر پالیسی بیان دیتے ہوئے پاکستانی حکومت کے منھ پر پورے زور سے رسید کئے تھے۔ پھر ہمارے خواص و عوام اپنی اپنی استطاعت کے مطابق امریکہ پر برسنے لگے۔
سو ال یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان کی اُن قربانیوں کو نظر انداز کیا جو یہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دے چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اور اُس کے مشیر اُن عظیم قربانیوں سے کیوں ’’بے خبر‘‘ ہیں؟ جن کی مثال آج تک کوئی قوم یا ملک پیش نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ لوگ بے خبر نہیں، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے بیس کروڑ مسلمان عوام کے ایک اہم ملک کو کیوں نظر انداز کیا جس کی حمایت کے بغیر امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف پڑوس کے بھارت کا ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف تعریف کرتا ہے بلکہ پاکستان یا اس کے مفادات کے خلاف بھارت کے تعاون کو بھی پسند کرتا ہے۔
پاکستانی حکومت، خصوصاً جی ایچ کیو کے لیے اس زندہ مثال اور اس جیسی اور بھی مثالوں کو نئے زاویہ سے دیکھنا چاہئے۔ میں جی ایچ کیو کی بات اس لیے کرتا ہوں کہ سویلین محکموں کے گناہوں کا کفارہ، فوج اور پولیس وغیرہ کی قربانیوں سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اب بہت ہوچکا۔ ردالفساد کے لیے کئی ایک غیر مسلح مورچوں کو بھی دیکھنا اب فرض ہوگیا ہے۔ کل جس شخص، اشخاص یا نظام کی وجہ سے وطن کے بیٹوں کا خون ہوتا ہے، اُس نظام یا افراد کی اصلاح آج کیوں نہ کی جائے؟ کسی شاعر کا یہ شعرایسے حالات کے لیے بڑا موزوں لگتا ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ نا حق خون پروانے کا ہوگا

امریکہ نے بیس کروڑ مسلمان عوام کے ایک اہم ملک کو کیوں نظر انداز کیا جس کی حمایت کے بغیر امریکہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتا۔ (Parhlo.com)

اُن حالات کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے جو کل کسی بڑے یا چھوٹے فساد کا سبب ہوتے ہیں۔ غیر موزوں افرادی قوت پاکستانی محکموں میں کمزوریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ سویلین سائڈ پر رینک پرموٹیز نے بہت تباہی مچادی ہے۔ افسری کے لیے صرف دفتری کام کی سوجھ بوجھ اہم نہیں بلکہ حکم رسول (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے مطابق زیرک اور معاملہ فہم ساتھ ساتھ اہلیت، امانت، صداقت، دلیری، قوتِ اظہار و قوتِ فیصلہ کسی بھی افسر میں ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اب آپ کسی نوجوان کو صرف سکول کے درجۂ امتحان کی بنیاد پر اہلیت یا سفارش یا رشوت یا رشتہ داری کی بنیاد پر کلرک یا ٹائپسٹ بھرتی کردیتے ہیں۔ عمر اور ملازمت کے آخری سالوں تک وہ ایک پسی ہوئی ماتحت اور محروم و تنگ دست زندگی گزار دیتا ہے۔ اور پھر حالات کے تقاضوں کے تحت وہ مصلحت پسند بن جاتا ہے۔ وہ کیا افسری کرے گا اور کیا اعلیٰ سوچ، اعلیٰ منصوبہ سازی اور اعلیٰ و دلیر فیصلے کرے گا؟ ان اعلیٰ خواص کے لوگ رینکرز میں بہت کم ہوتے ہیں۔
دوسرا خطرناک طبقہ جعلی بیوروکریٹس کا ہوتا ہے کہ بغیر درکار سرداری کے خواص کے لوگ افسر بن جاتے ہیں۔ صرف تنخواہ کی بڑی سکیل یا خود ساختہ قواعد کی بنیاد پر۔ اخباری اطلاع مورخہ 23 اگست 2017ء کو صوبہ کے پی کے محکمہ اینٹی کرپشن نے صوبے کے تین کرپٹ ترین محکموں کو یوں قرار دیا ہے۔ پہلے نمبر پر محکمہ مال، دوسرے پر محکمہ تعلیم اور تیسرے نمبر پر محکمہ صحت۔ اب اگر صرف انہی تین محکموں کو دیکھا جائے، تو ان کے تقریباً تقریباً تمام آفیسرز محکمے کے اپنے ملازمین ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی باقاعدہ سویلین منتخب شدہ آفیسر برائے انتظامی و مالی امور نہیں ہوگا۔ ان جعلی افسران میں بے شمار بہت دیانت دار بھی ہوتے ہیں، لیکن نا سمجھی کی وجہ سے یہ چالاک افراد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کبل سوات اور گورنمنٹ کالج آگرہ ملاکنڈ صرف دو مثالیں ہیں۔
مقابلے کا امتحان پاس کرنے والوں میں اعلیٰ ترین خواص کے افسروں کو محکمہ خارجہ کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے اندرونِ ملک اور بیرون ملک (سفارت خانوں) میں کتنے اس قسم کے ریگولر آفیسرز ہیں؟ کتنے رینکرز ہیں اور کتنے آسمانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں؟ پھر اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ بغیر اچھے عملے کے قابل ترین افسر کچھ بھی نہیں کرسکتا اور ہم دیکھتے ہیں کہ دکانداروں کے لیے قائم محکمہ تعلیم سے ناکارہ تعلیم یافتہ افراد کو بھی رشوت، سفارش یا اقربا پروری کی بنیاد پر دفاتر میں کھپایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ کیسے اپنے آفیسرز کو عمدہ سپورٹ دیں گے؟ محکمہ اُمورِ خارجہ سمیت فیڈرل گورنمنٹ کے کئی درجن محکمے اور بہت سارے ذیلی دفاتر و شعبے ہیں۔ ان کی افرادی قوت کافی زیادہ ہے لیکن ان کے لیے بھرتی کے اشتہارات نہ ہونے کے برابر شائع ہوتے ہیں، گویا کہ ہر سال بے شمار آسامیاں چوری چھپے اپنے پیاروں سے یا خریداروں سے پُر کی جاتی ہوں گی۔ پارلیمنٹ میں ہم جن لوگوں کو بھیجتے ہیں اُن میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی……؟ اور کسی بھی پارٹی کی حکومت کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اُس کے ساتھ وزارتِ خارجہ، وزارت خزانہ جیسی ٹیکنیکل وزارتوں کے لیے موزوں آدمی نہیں ہوتے۔
جی ایچ کیو خواہ پسند کرے یا نہ کرے لیکن کم از کم میں اُس کی طرف دیکھتا ہوں اور میری یہی آرزو ہوتی ہے کہ جی ایچ کیو حکومت کو اُس کی اندر برائیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کیا کرے۔ کس چینل کے ذریعے کرے؟ یہ وہ خود پسند کرے۔ عدلیہ سے بھی یہی توقع ہے لیکن وہاں زر پرست وکلا کی قوت زیادہ ہے۔ وہ کسی سے بھی پیسے لے کر حکم امتناعی لے سکتے ہیں اور دال نہ گلنے کی صورت میں عدالتوں پر اور ججوں پر حملہ آور بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ عمدہ شہریت یا قوت حکمرانی نہیں ہے۔ سیاسی وڈیروں نے آئین سے آرٹیکل 58(2)B ہٹاکر صدر مملکت کو بے بس کردیا ہے۔ پاکستانی محکموں سے متعلقہ قوانین اور قواعد کے تحت درست اور مکمل کام لینا نہایت ہی ضروری ہے۔ سخت اور سخت ترین اقدامات وقت کی پکار ہیں، جو شخص یا اشخاص عوامی خدمات کے راستے میں رکاؤٹ بنتے ہیں، اُن کو فوری طور پر جنت بھیجنا چاہئے۔

جی ایچ کیو خواہ پسند کرے یا نہ کرے لیکن کم از کم میں اُس کی طرف دیکھتا ہوں اور میری یہی آرزو ہوتی ہے کہ جی ایچ کیو حکومت کو اُس کی اندر برائیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کیا کرے۔ کس چینل کے ذریعے کرے؟ یہ وہ خود پسند کرے۔ (فوٹو بہ شکریہ dawn.com)

کے پی کے حکومت نے پہلے ناموزوں افراد کو آفیسرز بناکر ایک غلطی کی، اب یہ ایک اور سازش کا شکار ہوگئی ہے کہ اساتذہ سے پی ٹی سی، سی ٹی، بی ایڈ ، ایم ایڈ کی شرط ختم کررہی ہے، تاکہ نہایت ہی نااہل اور ناموزوں افراد قوم کے اساتذہ بن سکیں اور ٹیچرز سنز کوٹہ میں ہر قسم کے شخص کو ٹیچر بنایا جاسکے۔ جمہوریت اور انصاف کی باتیں کرنے والی حکومت کو یہ دونوں بڑے فیصلے اسمبلی میں لانے چاہئے تھے۔ ملازم کو بہترین مراعات اور سہولیات دینی چاہئیں، لیکن آفیسرز کی پوزیشنوں کے لیے موزوں ترین افراد ہوں، صرف سکیل سترہ وغیرہ والے نہ ہوں۔ چوں کہ پاکستان کے متعلقہ سرکاری ملازمین نالائق تھے اور ہیں، اس لیے وہ بیرونِ ملک پاکستان کی قربانیوں کو عمدہ طریقے سے اجاگر نہ کرسکے اور با خبر امریکہ بھی ’’بے خبر‘‘ رہا۔ غلطی پر ہم ہیں کہ ہم نے اندھوں کو چوکیدار بنایا ہے۔

……………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔