پنشنرز وہ حضرات ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا سنہرا دور یعنی جوانی اور پھر ادھیڑ عمری کے بعد بڑھاپا بھی کسی حکومتی محکمے کی نذر کر دیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے 35 سے 40 سنہری اور قیمتی سال محکمے کو دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوتے ہیں، تو دوسرا کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہ پاتے۔ زیادہ تر ملازمین 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے جب انسان کے قوا مضمحل اور اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ نظر کم زور اور یادداشت متاثر ہو چکی ہوتی ہے۔ بلڈ پریشر، شوگر، جوڑوں کا درد اور بہت سی بیماریاں آ گھیرتی ہیں۔ زندگی کے باغ کی آخری کیاری کو پانی لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ سنیئر سٹیزنز میں شمار ہونے لگتے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
عمر کے اس حصے میں پہنچ کر یہ لوگ ایک بڑے خاندان کے سربراہ بن جاتے ہیں۔ اولادوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں۔ پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے۔ خاندان برادری کے اکثر فیصلے انھی کے ذمے ہوتے ہیں۔ بہ ظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ بزرگ اپنی اولاد کی شادی کی ذمے داریوں سے سبک دوش ہو کر دو افراد یعنی میاں بیوی کی صورت میں گھر کی رونق رہ جاتے ہیں، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے والدین کا گھر ’’بڑا گھر‘‘ ہوتا ہے، جو والدین کی زندگی کی آخری سانس تک اُن کے لیے پناہ گاہ کا کام دیتا ہے۔ تب گھر کے اخراجات پہلے سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ والدین کے گھر میں غیر شادی شدہ بیٹیاں روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کرلیتی ہیں، مگر شادی کے بعد ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ بیٹیاں تو گزارا کرلیتی ہیں، لیکن جب اُن کے ساتھ داماد اور اُن کے بچے بھی آتے ہیں، تو اُنھیں وی آئی پی پروٹوکول دینا ہی پڑتا ہے، تاکہ بیٹی اپنے گھر میں سکھی رہے۔ اُسے سسرال والوں سے یہ طعنہ نہ ملے کہ تمھارے والدین نے خاطر داری میں کمی کی ہے۔ یوں اُن خاطر داریوں میں اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ عید کے موقع پر بیٹیوں کو عیدی بھیجنا لازم ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو والد یا بہنوں کو بھائی کی طرف سے یہ آس ہوتی ہے کہ ’’پیکے گھر‘‘ سے عیدی ملے گی، تو اُن کا مان اور بھرم قائم رہے گا۔ نواسے، پوتے، نواسیاں اور پوتیاں جب جب چند دن کے لیے ننھیال یا ددھیال میں رہنے کے لیے آ جائیں، تو جہاں گھر میں رونق لگ جاتی ہے، وہیں پر اخراجات بھی بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں کہ اصل زر (اولاد) سے سُود (ان کی اولاد) زیادہ پیارا ہوتا ہے۔
یہ بزرگ جب خاندان اور برادری کے سربراہ بن جاتے ہیں، تو ان کے ہاں آمدورفت بھی بڑھ جاتی ہے۔ آنے والوں کی آو بھگت اور مہمان نوازی کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بیاہ شادی اور خوشی غمی میں بھی شامل ہونا لازم ہوتا ہے جو اضافی اخراجات کا باعث بنتا ہے۔ بڑھاپے میں بندے کو بیماریاں بھی ہر طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ بے پناہ مہنگائی کے اس دور میں ڈاکٹروں کی فیس بھرنا ہی ممکن نہیں رہا جب کہ ادویہ کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت آئے روز ادویہ کی قیمتیں بڑھانے کی اجازت دے کر مڈل کلاس طبقے کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ پنشنرز تو خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بیماری کی صورت میں یہ حالات سے کیسے نبردآزما ہوتے ہوں گے؟ اس بارے میں آج تک کسی نے سوچا ہی نہیں۔
ہماری حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ پنشنرز کو ریٹائرمنٹ کے بعد صرف کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے کوئی اخراجات نہیں ہوتے۔ اس لیے انھیں بس اتنی ہی رقم چاہیے کہ وہ جسم و جاں کا رشتہ برقرا رکھ سکیں۔ نہ صرف یہ سوچ غلط ہے بلکہ پنشنرز کے ساتھ سراسر زیادتی بھی ہے۔ دوسری بڑی زیادتی یہ کی جاتی ہے کہ حاضرِ سروس ملازمین کی تنخواہ کی نسبت پنشنرز کی پنشن میں بجٹ کے موقع پر کم شرح سے اضافہ کیا جاتا ہے۔
حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی کی شرح گذشتہ ایک سال میں قریباً 50 فی صد بڑھ گئی ہے۔ پنشنرز وہ مظلوم طبقہ ہے جن کا گزارا صرف پنشن پر ہوتا ہے۔ اُن کے پاس آمدنی کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ اُن کے جسم میں محنت مزدوری کرنے کی سکت نہیں رہ جاتی۔ وہ قلیل پنشن میں متذکرہ بالا حالات سے کس طرح نبٹتے ہوں گے۔ اُس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حکومتِ وقت کا الیکشن سے پہلے یہ آخری بجٹ ہے۔ اِس کے بعد اِس نے الیکشن میں جانا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پنشنرز کے اِس پسے ہوئے طبقے کی اشک شوئی کرتے ہوئے ان کی پنشن میں کم از کم سو فی صد اضافہ کر کے ان بزرگوں کی دعائیں لی جائیں، تاکہ زندگی انھیں عذاب نہ لگے اور وہ اپنی جائز ضرورتیں بھی کئی کئی ماہ تک ٹالنے پر مجبور نہ ہوں۔
حاضرِ سروس ملازمین کے لیے مسلم لیگ ہی کے دورِ حکومت میں اس کے وزیرِ خزانہ میاں محمد یاسین وٹو نے ہر سرکاری ملازمین کے لیے انشورنس سکیم متعارف کروائی تھی، جس کے تحت ہر ماہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے کٹوتی کی جاتی ہے، مگر ریٹائرمنٹ پر سرکاری ملازمین کو انشورنس کی رقم ادا نہیں کی جاتی۔ اس رقم کے حصول کے لیے ان ملازمین کو مرنا پڑتا ہے۔ تب جا کر اس کے لواحقین اس رقم کے حق دار ٹھہرتے ہیں، یعنی ساری سروس کے دوران میں اپنی تنخواہ سے کٹوتی کروانے والا ملازم اپنے ہی بیمے کی رقم سے محروم رہتا ہے۔ اگر ریٹائرمنٹ پر اسے یہ رقم مل جائے تو اس کی کئی ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کے اس جائز مطالبے کو مان کر سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت انشورنس کی رقم کی ادائی ممکن بنائی جائے۔ جو ملازمین پہلے ہی ریٹائرڈ ہو چکے ہیں انہیں منافع سمیت انشورنس کی رقم ادا کی جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔