ترجمہ: توقیر احمد بھملہ  
ایک بوڑھے کسان نے اپنی بیمار بیوی کو گھوڑا گاڑی کی عقبی نشست پر لٹا دیا۔ خود وہ اگلی نشست پر سوار ہوا۔ گاڑی کو کھینچنے کے لیے اُس کے آگے مریل سا گھوڑا جتا ہوا تھا…… اور یوں وہ اُسے علاج کے لیے دور دراز شہر لے گیا۔
مسافت طویل تھی، تو رستے میں اُس کسان نے بولنا شروع کر دیا۔ وہ روانی سے بولتا جا رہا تھا اور اپنا آپ کھولتا جا رہا تھا۔ یوں جیسے وہ خود سے بات کر رہا ہو، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی بیمار بیوی کو تسلی بھی دے رہا ہو، جو چالیس سال تک اُس کے ساتھ دکھوں، مصیبتوں، تکلیفوں اور دردوں کو سہتے ہوئے مشقت میں اُس کی بھرپور مدد کرتی رہی تھی۔ باہر کھیتوں میں اور گھر کے کام کاج کا بوجھ اکیلے اٹھانے کی مشقت……!
کسان جیسے جیسے بولتا جارہا تھا، اُسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گذشتہ برسوں میں اُس کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک کرتا رہا ہے…… اور اُسے اب اُس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہیے…… اور اُسے میٹھے بول سے دلاسہ دینا چاہیے۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
انتون چیخوف، شخصیت و فن  
چیخوف، افسانے کا سب سے بڑا نام  
گورکی اور چیخوف کی ایک ملاقات کا احوال  
انقلابِ روس میں لکھاری کا کردار  
اُس نے اپنی بیوی کو بتانا شروع کر دیا کہ نہ صرف اُس نے اُس کے ساتھ ظلم کیا ہے، بلکہ زندگی نے بھی اُس کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ کیوں کہ اُسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں اُس سے کوئی مہربان لفظ کہنے، ہم دردی کے دو میٹھے بول پیش کرنے، یا اُسے پانی جیسی پاکیزہ اور لطیف مسکراہٹ دینے کا وقت نہیں ملا۔ کٹھن حیات میں آسانی کا ایک لمحہ بھی اُسے نہ دے سکا۔
وہ شخص تمام راستے پچھتاوے کا احساس لیے یاسیت بھرے لہجے میں بغیر رُکے بولتا رہا۔ ایک ندی کا پانی جس طرح پتھروں پر مسلسل گرتا رہتا ہے، تو اُن پر اَن مٹ گہری لکیریں ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح غم بھی انسانی روح پر کندہ ہوچکے تھے۔ وہ اُن غموں کا مداوا کرنا چاہتا تھا، اور اپنے سابقہ روپے کی تلافی کے لیے محبت، نرمی اور ازدواجی زندگی میں گرم جوشی پیدا کرنے والے اُن لفظوں کا سہارا لینا چاہتا تھا، جو اُس نے گذشتہ چالیس برسوں میں استعمال نہ کیے تھے۔ اُس نے عقبی نشست پر لیٹی بیمار بیوی سے وعدے کرنے شروع کیے کہ باقی ماندہ زندگی وہ اُس کے لیے وہ سب کچھ حاصل کرے گا، جس کی اُسے کبھی خواہش رہی تھی اور آیندہ بھی وہ خواہش کرے گی۔
جب وہ شہر پہنچا، تو آگے والی نشست سے اُٹھ کر عقبی نشست پر سے زندگی میں پہلی بار اُسے اپنی بانہوں میں بھر کر اُٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا، مگر ڈاکٹر نے دیکھتے ہی اُسے کہا کہ یہ تو کب کی مرچکی ہے۔
وہ اب ایک سرد لاش کے سوا کچھ نہ تھی۔ طویل رستے میں زندگی پہلی بار اُس کی میٹھی، شفقت بھری گفت گو سننے سے پہلے ہی وہ مر چکی تھی!
(روسی ادیب انتون چیخوف کی تحریر جسے عربی زبان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا گیا۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔