تبصرہ نگار: اذہان خان 
’’آج ماں کا انتقال ہو گیا، شاید کل…… یقین سے نہیں کَہ سکتا!‘‘
یہ ناول اجنبی "The Stranger” کے پہلے ابتدائی فقرے ہیں۔ ’’میرسا‘‘ (Meursault) جس کی ماں کا انتقال بورڈنگ میں ہوگیا ہے، بورڈنگ جو کہ 60، 70 میل فاصلہ پر واقع ہے اور ’’میرسا‘‘ آفس کے ہیڈ سے چھٹی کی درخواست کرتا ہے، یہ غالباً جمعہ کا دن ہوتا ہے۔
’’میرسا‘‘ وہاں سے چھٹی لے کر مردہ خانے چلا جاتا ہے، جہاں اُس کی ماں کی میت رکھی گئی ہے۔ وہاں پہنچنے پر مردہ خانے کا ڈائریکٹر اُن سے کہتا ہے کہ کیا وہ اپنی ماں کی میت کو دیکھنا چاہے گا؟ تو ’’میرسا‘‘ بالکل اُلٹ جواب دیتا ہے کہ نہیں…… وہ نہیں دیکھنا چاہتا!
عموماً جس طرح لوگ اپنی والدہ کی وفات پر رنجیدہ یا غم اور سوگ مناتے ہیں، لیکن ’’میرسا‘‘ اُس کے بالکل برعکس تھا۔ اُس کو فکر ہی نہیں کہ اُس کی ماں کب اور کس وقت مری۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آفس کی دوست ’’میری‘‘(Marrie) کے ساتھ شام کو کامیڈی مووی دیکھنے چلا جاتا ہے اور اُس کے بعد ساحلِ سمندر پر موج مستی کے لیے۔
اُس سے پہلے وہ جب مردہ خانے پہنچا تھا، تو اُس نے سگریٹ بھی پی لی تھی اور ساتھ میں ڈائریکٹر کو بھی پیشکش کی تھی۔بعد میں یہی ڈائریکٹر کورٹ میں ’’میرسا‘‘ کے پاگل پن کی تصدیق کرتا ہے۔
’’میرسا‘‘ کبھی کبھی ’’سلیست‘‘ (Celeste) کے ہوٹل کھانا کھانے کے لیے بھی جایا کرتا تھا۔ وہ تیز روشنی، سورج اور شور کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ مذہبی بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب مجسٹریٹ نے اُس سے پوچھا: ’’کیا تم خدا پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘ تو اُس نے کہا کہ ’’نہیں!‘‘
دراصل اُس کے لیے یہ دنیا ہی سب کچھ تھی۔ اِس کے علاوہ اُس کے سامنے اخلاقی اقدار کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور جب اُس کی ماں مر گئی تھی، تو اُس نے صدمے کو نارمل اور بالکل عام لیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو۔
بہرحال پہلے حصے میں اور بھی کچھ دلچسپ واقعات ہیں جیسے "Raymond Sintes” یہ بندہ ’’میرسا‘‘ کا ہمسایہ ہے اور "Salamona” جو کہ ایک بوڑھا ہے، اور اُس کے پاس ایک کتا بھی ہے۔ خیر، ناول کے دوسرے حصے کا ذکر کرتا چلوں کہ یہ حصہ ناول کا سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جب ’’میرسا‘‘ ایک عرب بندے کو قتل کرتا ہے اور اُس کو گرفتار کرکے جیل لے جایا جاتا ہے۔ شروع میں اُس کے لیے جیل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وقت کیسے گزارا جائے؟ کیوں کہ وہ باہر کی دنیا کا عادی تھا۔ اُس کوفت کو دور کرنے کے لیے وہ پرانی یادوں کو دہرانے لگتا ہے اور جتنا زیادہ وہ سوچتا ہے، اتنی ہی زیادہ تفصیلات یاد آتی جاتی ہیں ۔
اور اسے اب یقین ہوگیا کہ”A man who had lived only one day could easily live for a hundred years in prison. Because he would have enough memories to recount to keep from getting bored.”
اُس کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔
بہرحال، آخرِکار اُس کے آخری فیصلے کا دن نزدیک آتا ہے۔ جہاں سب گواہان جن میں "Celeste”, "Raymond”, "Salamona” اور اُس کا سرکاری وکیل اور دوسرا وکیل جیوری کا صدر اُس کی دوست "Marie” سب وہاں تھے۔ سماعت سے پہلے "Marrie” اُس کو کہتی ہے کہ اُمید قائم رکھنا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
دو عورتیں (عربی ادب) 
ماچس والی لڑکی (انگریزی ادب)  
ایک ہی کوکھ (موزمبیقی ادب)  
میرا یار ابو حسن (فلسطینی ادب)  
دو جنرل اور ایک عام آدمی (روسی ادب) 
فرانسیسی ادب سے ترجمہ شدہ ناول  
جب مقدمہ کی سماعت شروع ہوتی ہے اورگواہوں کے نام پکارے جاتے ہیں، تو وہ حیران ہوجاتا ہے، اور وہ اُن کو پہچان نہیں پاتا ہے۔ آغاز غیر ضروری سوالات سے ہوتا ہے اور ’’میرسا‘‘ سمجھ جاتا ہے کہ وہ اُن سے اُن کی والدہ کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔ پھر جب اُس سے پوچھا گیا کہ تم نے عرب کو کیوں مار دیا، تو وہ کہتا ہے کہ یہ تو محض اتفاق سے ہوا۔ سورج کی روشنی جو میری آنکھوں پر پڑی اور مجھے کچھ نظر نہیں آیا تو مَیں نے فائر کردی ۔
لیکن اس کے باوجود وکیل نے اُن سوالات کو نہیں چھوڑا جس کا قتل کے واقعے سے بالکل کوئی تعلق نہیں تھا۔ اُس کو قصور وار اِس لیے ٹھہرایا گیا کہ وہ والدہ کی وفات پر ’’پُرسکون‘‘ کیوں تھا، اُس نے کامیڈی مووی کیوں دیکھی اور اُس نے کافی اور سگریٹ کیوں پی؟ اور جو گواہ تھے اُنھوں نے بھی یہی کہا۔ "Celetes” نے کسی حد تک اُس کی حمایت کی کہ وہ اچھا بندہ ہے، لیکن کام نہ آئی اور اُس سب کچھ ہوجانے کہ بعد ’’میرسا‘‘ کہتا ہے کہ "For the first time I realized that I was guilty.”
اِس کے بعد وہ کچھ نہیں کرتا۔ کیوں کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب بے معنی ہے۔ اور جب آخر میں جیوری کا صدر کہتا ہے کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ کیوں کہ اُسے سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔ تو وہ جوابا! کہتا ہے: ’’نہیں……!‘‘
وہ بس یہ چاہتا ہے کہ اُسے جیل کی کوٹھڑی میں لے جایا جائے، تاکہ وہ وہاں دیر تک سوسکے۔
آخر میں اُس کے پاس جیل کی کوٹھڑی میں پادری آتا ہے، تاکہ وہ ’’میرسا‘‘ کو نصیحت کرسکے اور اُس کو توبہ کے لیے راغب کریں۔
جب پادری اُس سے پوچھتا ہے کہ آپ خدا کی رحمت سے مایوس کیوں ہیں؟ تو ’’میرسا‘‘ جواباً کہتا ہے کہ”I had only a little time left and I didn’t want to waste it on God.”
وہ دراصل پادری سے تنگ آجاتا ہے اور اُس کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ پادری اُس کو کہتا ہے کہ مَیں آپ کو دعا کروں گا۔ تو ’’میرسا‘‘ جواب میں کہتا ہے کہ مجھے آپ کی دعاؤں کی ضرورت نہیں۔ فنا ہوجانے سے تو جہنم میں جلنا بہتر ہے۔ (It’s better to burn than to disappear.)
پادری پھر سے پوچھتا ہے: ’’کیا واقعی تم پُرامید نہیں ہو اور کیاتم واقعی اس سوچ کے ساتھ جیتے ہو کہ جب تم مرتے ہو، تو تم مر جاتے ہو، اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا؟
’’میرسا‘‘ نے جواب دیا: ’’ہاں……!‘‘ اور آخر زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے دل کو کائنات کی بے اعتنائی کے سپرد کر دیا۔
اب بس اُس کی زندگی کی آخری خواہش رہ گئی تھی کہ جس دن وہ تختۂ دار پر چڑھے، تو اُس روز بہت بڑا ہجوم ہو اور لوگ اُس کا استقبال لعنت و ملامت اور گالیوں سے کریں۔
مصنف کا تعارف:۔
البرٹ کامیو (Albert Camus) 1913ء میں فرانس کے کالونی الجیریا میں پیدا ہوئے۔ اِس عظیم فلسفی کا نام یقینا ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے غیر معروف نہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران میں والد کی وفات اور پھر حالات کی تنگی و سختی نے البرٹ کی والدہ کو دوسروں کے گھروں میں صفائی کرنے پر مجبور کیا۔ کامیو 17 سال کی عمر میں ٹی بی مرض کا شکار ہوئے، وہ اُس وقت الجیریا یورنیورسٹی میں پڑھ رہے تھے۔ ٹی بی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یورنیورسٹی سے نکالے گئے۔ کیوں کہ اُس وقت ٹی بی ایک مہلک مرض سمجھا جاتا تھا۔صحافت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد میں پیرس منتقل ہوئے۔وہاں فلسفہ ’’لغو‘‘ (Absurdism) اپنایا، جس کو اُنھوں نے اپنے فلسفیانہ مضامین میں "The Myth of Sisyphus” میں بہتر انداز میں بیان کیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔