سنہ 1964ء میں ریاست کے والی میاں گل عبدالحق جہان زیب نے سوات سنیما کا افتتاح کیا، تو اس میں پہلی ہندی فلم ’’آبِ حیات‘‘ لگی تھی۔ والیِ سوات خود بھی اپنے وزیروں کے ہم راہ پہلے شو سے لطف اندوز ہوئے تھے۔ اُس سنیما گھر کی بنیاد عطاء اللہ خان وکیل صاحب نے رکھی تھی۔ بعد میں وہ امان اللہ خان جلو خیل کی ملکیت میں آیا، جو اُس وقت کی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے دل دادہ تھے۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
قارئین! یہ اُس وقت کی بات ہے جب سنیماؤں میں فحاشی و عریانی کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ادب اور فنونِ لطیفہ کا بہت گہرا تعلق تھا۔
اُس دور میں مکان باغ میں ایک اوپن ائیر تھیٹر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، جس کو ’’چرڑو سنیما‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کی دیواریں قنات لگا کر بنائی گئی تھیں اور فلم دیکھنا اندھیرے میں ہی ممکن تھا۔
سوات میں ’’پلوشہ سنیما‘‘ کے قیام نے بمبئی فلم انڈسٹری کی رسائی اور بھی ممکن بنائی۔ ’’امان سینما، پشاور‘‘، ’’پی آر سی سنیما، مردان‘‘ اور ’’سوات پلوشہ سنیما، مینگورہ‘‘ نے ادب اور شاعری کی مدد کے ساتھ برصغیر کی تہذیب سے اس خطے کو روشناس کرایا۔ اسی خطے نے ’’راج کپور خاندان‘‘ جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ چکیسر سے پشاور اور پھر طویل قیام کے بعد پشاور سے بمبئی منتقل ہوگیا تھا، ہندوستانی فلم انڈسٹری کو عطا کیا۔
قارئین! ادب ایک عام موضوع اور ورثہ ہوتا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں نے گو کہ ادب اور فنونِ لطیفہ کے تبادلے متاثر کیے، مگر انسانوں کے درمیان رشتوں کو متاثر نہیں کیا۔ تب تک بننے والی فلمیں ’’انسانیت‘‘، ’’خوداری‘‘، ’’محبت‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کے موضوعات پر تھی۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ریاستی دور، سوات سنیما اور ودودیہ سکول کی یادیں 
ریاستِ سوات کا تاریخی چرڑو سنیما 
مینگورہ اک شہر بے مثال 
بدر منیر، اِک عہد ساز اداکار  
تمھاری قبر میں، مَیں دفن ہوں 
سرد جنگ نے انڈسٹری کو ’’روسی‘‘ اور ’’امریکی بلاک‘‘ میں تقسیم کردیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت اور اشتراکیت کی حمایت نے فلم انڈسٹری میں پہلی دفعہ سیاست داخل کی۔ اس طرح 1980ء کے بعد ضیاء الحق کی سربراہی میں انتہا پسند اور عسکریت پسند حکم رانی نے معاشرے میں امریکی مفادات کی جنگ کو اپنی لڑائی بنا ڈالا۔ روسی مخالفت موضوعات کی طرف ٹی وی، فلم اور ادب کا منھ موڑا گیا۔ یوں ہمارے معاشرے میں ایک طرح سے تلخی پھیل گئی۔ عسکریت پسندی نے یہاں جڑ پکڑ لیے۔ ادب کا بھی ’’دین‘‘ بن گیا۔ فنونِ لطیفہ ایک طرح سے کافر ٹھہرا۔ سینما ہال شیطان کے ٹھکانے گردانے گئے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری دور درشن کی محتاج بن کر رہ گئی۔ مقابلے کی عدم موجودگی میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو فحاشی و عریانی کا سہارا لینا پڑا۔ یوں جو سنیما ہال کبھی تہذیب سیکھاتے تھے، بد تہذیبی پھیلانے لگے۔ یوں ایک طرح سے سنیما کا زوال شروع ہوا۔
ان حالات کے پیشِ نظر ’’پلوشہ سنیما‘‘ کی پرشکوہ عمارت مرور ایام کے ساتھ ڈھا دی گئی اور آج ’’چاچا ٹاور‘‘ کے نام سے موسوم ہے…… جہاں چائینہ سے آیا ہوا سامان اور دیگر اشیا کی دُکانیں ہیں۔
قارئین! تحریر میں شامل تصویر دراصل 1978ء کے پلوشہ سنیما کے گیٹ کیپر، عملے اور دیگر افراد کی ایک یادگار گروپ فوٹو ہے، جو ریاستِ سوات کے ماضی اور پرانے مینگورہ کی اصل تصویر ہے، جو یہاں اَدب اور فنونِ لطیفہ کے عروج کی یاد دلاتی ہے۔
یاد رہے کہ 16 نومبر 2004ء کو پلوشہ سنیما میں بم دھماکا ہوا تھا، جس میں دو افراد کی جان گئی تھی اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔سنیما میں عید کے موقع پر چل رہی پشتو فلم ’’ستا دَ دوو سترگو دپارہ‘‘ (آپ کی آنکھوں کی خاطر) کا یہ آخری شو تھا اور چند ہی منٹوں میں ختم ہونے والا تھا کہ دھماکے کا واقعہ رونما ہوگیا۔
دھماکے میں دو افراد موقع پر جاں بحق جب کہ 29 زخمی ہوئے تھے(روزنامہ ’’بزنس ریکارڈر‘‘ کے مطابق دھماکہ پیر کے روز ہوا تھا، جس میں 2 افراد جاں بحق اور 29 زخمی ہوئے تھے، اس طرح ایک انٹر نیشنل ویب سائٹ ’’جی ٹی ڈی‘‘ (Global Terrorism Database) نے 30 زخمی رپورٹ کیے ہیں، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام۔)
سنہ 2000ء کے بعد تشدد، عدم برداشت، مذہب کی غیر ضروری عسکری و سیاسی تشریح اور مالی بدحالی نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔