’’پاکستانی عوام وفاقی بجٹ سے ریلیف کی امید نہ لگائیں۔‘‘
یہ مَیں نہیں کَہ رہا اور نہ حزبِ اختلاف کا کوئی لیڈر ہی کَہ رہا ہے، بل کہ یہ سنہری الفاظ وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت ’’پاکستان مسلم لیگ (ن)‘‘ کے جناب احسن اقبال کے ہیں۔
اُنھوں نے مزید ارشاد فرمایا کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے ’’مزید قرض‘‘ لینے پڑیں گے۔ پھر اُن قرضوں کو ادا کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ حکومت کے وسائل محدود ہیں۔ اپنی آمدن سے قرضوں کا بوجھ بھی نہیں اُتار سکتے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
جناب احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ اگلے سال وفاقی حکومت کو 8 ہزار اَرب محاصل ملیں گے، جب کہ اگلے مالی سال صرف قرض میں 9 ہزار ارب روپے دینے ہیں۔
گذشتہ روز پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں پیش کیے گئے وفاقی بجٹ کا خلاصہ نکالا جائے، تو صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ آیندہ وفاقی بجٹ 18 ہزار 877 ارب روپے کا ہے۔ بجٹ کے مجموعی حَجم کا نصف9 ہزار 775 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ محصولات/ وصولیوں کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس میں صوبوں کا حصہ7 ہزار 438 اَرب روپے رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں ساڑھے 8 ہزار ارب روپے خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔
احسن اقبال جیسے اہم حکومتی رکن کی جانب سے پیش کیا گیا ’’قولِ زریں‘‘ پہلی مرتبہ دیکھنے سننے کو نہیں مل رہا۔
ریاست پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ حکومتی بینچوں اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے اراکینِ اسمبلی کی سوچیں 360 زاویہ کے حساب سے مختلف ہوتی ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین کو مہنگائی اور عوام الناس کے دُکھ درد کا احساس صرف اُسی وقت محسوس ہوتا ہے، جب وہ حزبِ اختلاف کے لیے بنائے گئے بینچوں پر براجمان ہوتے ہیں۔ جیسے ہی یہ اراکین حکومتی بینچوں پر براجمان ہوتے ہیں، ان کے بیانات، ان کے تیور انتہا درجے کے مختلف ہوتے ہیں۔ پھر نہ تو ان کو مہنگائی محسوس ہوتی ہے اور نہ عوام کا درد دل، بل کہ اکثر اوقات یہ مہنگائی کا دفاع کرتے بھی دِکھائی دیتے ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ عرصۂ دراز سے پاکستانی معیشت قرضوں کی مرہونِ منت چل رہی ہے۔ دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے وزرائے اعظم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے چند اَرب ڈالر کی قرض نما بھیک ملنے پر کام یابی کے شادیانے بجاتے ہوئے جشن مناتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کوئی قرضوں کو ’’پیکیج‘‘ کا نام دیتا ہے، تو کوئی قرضہ ملنے پر عوام کو خوش خبری کی نوید سناتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
خزانے پر پنشنر نہیں، اشرافیہ بوجھ ہیں (رفیع صحرائی)
بزرگ پنشنرز (ماسٹر عمر واحد) 
ریاست ماں ہے مگر سگی یا سوتیلی؟ (ساجد امان)
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائے یہود (سید فیاض حسین گیلانی)
بوڑھے پنشنرز مہنگائی سے سب سے زیادہ پریشاں (ماسٹر عمر واحد) 
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ قرضے لیے کیوں جاتے ہیں، یہ جاتے کہاں ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب شاید ہی ہم اپنی زندگی میں حاصل کرسکیں۔
اقتدار کے حصول کے لیے لمبی لمبی تقریریں اور انقلابی نعرے…… مگر بعد از حصولِ اقتدار عوام الناس کے منھ چڑھاتے بیانات……!
کاش! ہمارے سیاست دان ووٹ لیتے وقت بھی اس طرح کی باتیں کرلیا کریں، تو ہمیں سیاست دانوں کی دورنگی اور منافقت سے لتھڑی ہوئی حقیت آشکار ہونے کا افسوس نہ ہو۔
باوجود اس کے ریاستِ پاکستان کے عوام اس قابل ہیں کہ وہ ریاست پاکستان کے اخراجات ٹیکس ادائی کی صورت میں برداشت کرسکتے ہیں، مگرہمارے وزرائے اعظم کشکول لیے در بہ در گھومتے ہیں اورخیرات نما قرضوں سے مملکتِ پاکستان کوچلانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں ٹیکس حصولی کا نظام انتہائی پیچیدگی اور کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔ یہاں جو فرد ’’ٹیکس نیٹ ورک‘‘ میں شامل ہوگیا، وہ رگڑا جاتا ہے اور جو ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہے، وہ موجیں کر رہا ہے۔
ریاستِ پاکستان کے پاس ایسے ایسے شاہ کار ادارے موجود ہیں، جو مملکت میں بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، اُونٹ حتی کہ گدھوں کی تعداد تک بتا سکتے ہیں…… مگرافسوس نہ جانے ان اداروں کو پاکستان میں موجود ایسے افراد جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، ان کی معلومات حاصل کرنے میں کیا دشواری حائل ہوتی ہے؟
یقین مانیں اگر پاکستان میں ٹیکس لینے اور ٹیکس ادا کرنے والے ایمان داری اور قومی جذبے سے سرشار ہوکر کام کریں، تو ریاست پاکستان کو اندرونی و بیرونی قرضوں کی ضرورت ہی نہ پڑے، مگر افسوس حالت ایسی ہے کہ یہاں ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں پائی جانے والی کالی بھیڑیں آپ کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیوں سے بچانے کے لیے نت نئے طریقے سکھاتے دِکھائی دیں گی۔
چوں کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کے لیے ٹیکس اصلاحات کا نفاذ اور اداروں میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں پر ہاتھ ڈالنے کی توفیق اور ہمت نہیں۔ لہٰذا ہماری سیاسی لیڈرشپ کے لیے سب سے آسان حل قرضوں کے حصول کے لیے تگ دو کرنا ہی رہ گیا ہے۔
رہی سہی کسر ہمارا نظامِ انصاف پوری کردیتا ہے، جہاں اربوں روپے کے ٹیکسوں پر عدالتی حکمِ امتناعی سال ہا سال تک جاری ہوجاتے ہیں۔
ریاستِ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ صحیح معنوں میں ٹیکس کے گھن چکر کا شکار ہے۔ اس طبقے کو تو تنخواہ ہی انکم ٹیکس کٹوتی کے بعد ملتی ہے۔ پھر باقی ماندہ تنخواہ کے ساتھ اشیا کی خریداری کے وقت سیلز ٹیکس کی ادائی بھی کرنا پڑتی ہے۔
افسوس اور شرم ناک حقیقت تو یہی ہے کہ ریاستِ پاکستان کو ٹیکس تو یورپین ممالک کی طرز پر درکار ہیں، مگر سہولیتیں اور حفاظت افریقہ یا افغانستان جیسی ریاست کی طرح۔
قارئین کرام! آج پاکستانیوں کی حالت صرف اور صرف ریاستِ پاکستان کو پالنے جیسی رہ گئی ہے۔ معاشی بدحالی کا شکار پاکستان میں مہنگائی سے مرے ہوئے عوام پر مزید ٹیکسوں کا اطلاق کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا…… مگر افسوس پاکستان کو قرضوں اور معاشی بدحالی میں مبتلا کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ کیوں کہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت اور کل کی حکومت آج کی اپوزیشن بنتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔