قارئین، سوات یونیورسٹی کا قیام سابقہ حکومت میں 2010ء میں ہوا۔ اس کے بعد باقاعدہ کلاسوں کا آغاز بھی جیسے تیسے ہوگیا، جس سے سوات سمیت قریبی اضلاع کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ کیوں کہ سوات سمیت دیگر اضلاع کے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے پشاور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں کو جایا کرتے تھے۔ پہلے پہل کچھ شعبوں نے کام شروع کیا، اور آہستہ آہستہ شعبوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ اب لگ بھگ تین ہزار تک طلبہ و طالبات سوات یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن پریشانی والی بات سوات یونیورسٹی کی اپنی عمارت ہے، جو تاحال تعمیر نہ ہوسکی۔ دس سال تک "تعلیم” کا سفر تو رواں دواں رہا، لیکن کرایہ کی عمارتوں میں یونیورسٹی کی کلاسز جاری ہیں۔ ستم یہ ہے کہ یہ کلاسز ایک جگہ نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں کیمپس کی شکل میں مختلف شعبوں کے لیے کرایہ پر عمارتیں حاصل کی گئی ہیں، اور پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہے، جس سے نہ صرف طلبہ و طالبات کو مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ اساتذہ بھی اذیت کا شکار ہیں۔
قارئین، یونیورسٹی کے لیے گلی باغ میں جگہ مختص کی گئی ہے، جہاں دس سالوں میں صرف صدر دروازہ ہی بن پایا ہے۔ اس کے ساتھ ہر سال ممبرانِ اسمبلی اور یونیورسٹی انتظامیہ شجرکاری کے لیے آتے ہیں اور صرف پودے لگا کر واپس چلے جاتے ہیں۔ پھر اگلے سال بھی یہی ڈھونگ رچایا جاتا ہے، جب کہ پانچ چھے دفعہ وہاں پیتے کاٹ کر افتتاح کا عمل بھی کیا گیا ہے، لیکن یونیورسٹی کی اپنی عمارت تاحال نہیں بن پائی، جس کی وجہ سے طلبہ و طالبات سمیت مقامی لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اور تشویش کیوں نہ پائی جائے کہ دس سال میں تو ایک نہیں بلکہ کئی عمارتیں بن جاتی ہیں، لیکن بدقسمت سوات یونیورسٹی کی عمارت سرد خانے کی نذر ہوچکی ہے۔ ہر سال طلبہ اس امید پر گزار دیتے ہیں کہ اگلے سال عمارت بن جائے گی اور ہم وہاں شفٹ ہوجائیں گے، لیکن ہر سال اُن کی امیدوں پر گویا پانی پھیر دیا جاتا ہے۔
قارئین، اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی بھرتیوں میں بھی بے قاعدگیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ 2014ء کی بھرتیوں میں اہل امیدواروں کو چھوڑ کر "اول خویش بعد درویش” والا فارمولہ ایپلائی کیا گیا۔ ایم فل سکالرز موجود تھے، ان کو نظر انداز کرکے ان کی جگہ سمپل ماسٹر ڈگری رکھنے والے امیدواروں کو لیا گیا، جو آج کل "اسسٹنٹ پروفیسر” بنے ہوئے ہیں، اور سکالرز در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس ترقی یافتہ دور میں یونیورسٹی میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ بھی اہلِ سوات اور اس کے درجن بھر اسمبلی ممبران کا منھ چھڑا رہا ہے۔ اس مسئلہ کو بار بار مقامی صحافیوں نے رپورٹ بھی کیا ہے، لیکن "شجر کاری” ، "چائے بسکٹ” اور "فوٹو سیشنز” پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والی یونیورسٹی انتظامیہ نے صاف پانی جیسے اہم مسئلے پر ایک دَمڑی تک خرچ نہیں کی۔
"یوہ ویم بلہ رایادیگی” کے مصداق طلبہ و طالبات کو پریکٹیکل کام سکھانے کا بھی کوئی پروگرام نہیں ہے۔ مستقبل کے معمار بغیر کچھ سمجھے محض ڈگری کا ایک کاغذ لے کر فارغ ہو رہے ہیں، جو بہت بڑا نقصان ہے۔ بدیں وجہ عملی کام سیکھنے کے لیے پھر طلبہ و طالبات کو عملی میدان میں دوبارہ محنت کرنا پڑتی ہے۔
قارئین، یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں اساتذہ کی بھی کمی ہے، جس کے باعث طلبہ و طالبات پڑھائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ منتظمین کو چاہیے کہ یونیورسٹی کو فعال بنانے سمیت اس کی عمارت پر توجہ دیں، اور جلد از جلد اپنی اراضی میں عمارت تعمیر کراکر پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ نیز خالی پوسٹوں پر میرٹ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر بھرتیاں کی جائیں، تاکہ طلبہ و طالبات کا مستقبل محفوظ بن سکے۔

…………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔