ہم لاکھ چاہیں لیکن تاریخ کے اُن تلخ واقعات سے جان نہیں چھڑا سکتے، جنہوں نے ہماری پاک دامنی اور عصمت کو تار تار کیا ہے۔ آپ ذرا سوچ لیں اور خود سے ایک سوال پوچھیں۔ ’’غلطیاں جب ریاست کی سطح پر ہوں اور جن کی وجہ سے ایک پوری اجتماعیت پر سوالیہ نشان لگ جائے، تو کیا اُن کو تسلیم کرنا اور پھر اُن کا سدباب کرنا ارباب اختیار کی ذمہ داری نہیں ہوتا؟
قارئین، آپ قدرت اللہ شہاب کی شاہکار سوانح عمری’’شہاب نامہ‘‘ پڑھیں گے، تو میری طرح آپ کے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ کس طرح اس ملک کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ آپ ایک انگریز مصنف لارنس زائرنگ کی کتاب ’’پاکستان ان دی ٹوینٹیتھ سنچری‘‘ کوبھی جب پڑھیں گے، تو آپ واقعات کے سیل رواں میں بہہ جائیں گے اور حیران بھی رہ جائیں گے کہ کس طرح ایک نوزائیدہ ریاست کی بقا کو داؤ پر لگا یا گیا۔
یہ واقعات حکمرانوں کی اُن تمام ریشہ دوانیوں سے پردہ چھاک کرتے ہیں، جن کا ہمیں نصاب کی کتابوں میں ذکر تک نہیں ملتا۔ یہ واقعات ذاتی پسند و ناپسند سے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ان کا خاتمہ ذاتی فائدے اور پاکستان کی انتہائی نقصان پرہوتا ہے۔ یہ تمام واقعات حد سے زیادہ پریشان کن ہیں بالخصوص 1951ء سے لے کر 1960ء تک جب پاکستان کو ایک مظبوط سہارے کی ضرورت تھی، لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے ایک ایسا کھیل کھیلا گیا کہ جس کی وجہ سے آج تک ہم صرف نقصان ہی بھگت رہے ہیں۔
ہماری شخصیت کا ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ ہم برے واقعات کے بعد یا تو شاعر بن جاتے ہیں اور یا کچھ اس طرح حساس کہ الفاظ کی جادوئی استعمال سے پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہیں کہ ’’ہم بھولے نہیں، اور نہ کبھی بھلا پائیں گے‘‘ لیکن مجال ہے کہ کوئی سنجیدہ کوشش کرے کہ جس میں ہم من حیث القوم یہ ثابت کریں کہ ہم غلطیوں سے سیکھنے والے لوگ ہیں اور جب کچھ برا ہوتا ہے، تو پھر ہم سزا دیتے ہیں اور وہ بھی ایسی کہ پھر ان واقعات کو کوئی دہرا ہی نہیں سکتا۔ اب جیسا کہ ہر سال دسمبر میں پوری قوم یا تو شاعر بن جاتی ہے اور یا لفظوں کی جادوگر۔
سوچ لیں ناں لیاقت علی خان کو جب پنڈی میں قتل کیا گیا، تو اُس وقت کسی نے اس بات کی تفتیش ہی نہیں کی اور نہ آج تک پتا ہی چلا ہے کہ کس نے ایک اسلامی ملک کے منتخب وزیراعظم کو بھرے ہجوم میں قتل کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر پہلے مارشل لا تک کیا کچھ نہیں ہوا، تو کیا وہ بھی دسمبر ہی کے مہینے میں ہوا تھا ؟
قدرت اللہ شہاب اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب میں سکندر مرزا کے ساتھ امورِ سلطنت میں ہاتھ بٹانے پر معمور تھا، تو وہ تمام کام شام تک نپٹا کرچلے جاتے تھے اور جب تک روزانہ کے آخری فائل پر دستخظ نہ کرتے آفس سے گھر نہ جاتے۔ ایک دن ہاتھ میں سگریٹ تھامے اس نے آتے ہی مجھ سے پوچھا کہ کچھ رہ تو نہیں گیا؟ میں نے کہا جی نہیں، سب کام مکمل ہے ۔ وہ جانے کے لیے مڑے لیکن اچانک پھر میرے دفتر آئے اور ڈسٹ بن سے ایک عام سا کاغذ جلدی میں نکالا اور اس پر اس وقت کے فوجی سربراہ ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ یہ حکم نامہ اتنے عام کاغذ پر لکھا گیا تھا کہ لکھتے وقت اس کا دھیان بھی نہیں گیا کہ اس کے سگریٹ کا ایش بھی کاغذ پر پڑ رہا ہے۔ حکم نامہ لکھتے ہی فوراً مجھے اس کاغذ کو وزیراعظم ہاؤس پہنچانے کی تلقین کی اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ڈسٹ بن اور سگریٹ کے ایش سے بھرے کاغذ پر ایوب خان کو توسیع مل گئی۔
کیا ایسی چلتی ہیں ریاستیں؟ کیا وہ دسمبر تھا؟ کیا ہماری تاریخ میں درج تمام وہ واقعات دسمبر ہی میں آئے، جن کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا؟
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحۂ اے پی ایس ایسے تلخ واقعات ہیں جن کو ہم زندگی بھر نہیں بھلا سکتے، لیکن بجائے اس کے کہ ہم دسمبر کو ہی ہر سال کوستے رہیں، کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم ان واقعات سے منسلک ان تمام لوگوں کو سزاوار ٹھہرائیں جن کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا۔ بنگال سے بنگلہ دیش کا بننا اور پھر اندرا گاندھی کی وہ منحوس جسارت کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں پھینک دیا، کیا یہ بھلا دینے والی باتیں ہیں؟ کیا اس بدنامی کی کسی نے تفتیش کی یا کیا ذمہ داروں کو سزائیں ہوئی؟ کیا سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہمارے ملک میں کوئی بھی دل دہلا دینے والا واقعہ نہیں ہوا؟ اسی دسمبر میں بے شک ہم نے ایک اور قیامت کا بھی سامنا کیا جب آرمی پبلک سکول کے بچوں پر تاریخ کا بدترین ظلم ہوا۔ ہم ان والدین کے دکھ کا مداوا کبھی نہیں کرسکیں گے، جو آج تک اُن تکیوں سے چمٹی خوشبو کو سونگھ کر زارزار روتے ہیں جن پر ان کے بچے محوِ خواب ہوا کرتے تھے۔ دسمبر بالکل ذمہ دار نہیں بلکہ ہم ذمہ دار ہیں، اور جب تک ہم اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکیں گے، تب تک ایسے ہی مبالغوں سے بھرپور پاکستانی ہوں گے۔
ہم چاہے جتنا بھی کوشش کریں لیکن ہم دلاسوں پر جینے والی قوم بن گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے دانشور حضرات ہر سال دسمبر کو کوستے رہتے ہیں اور انگریزی سال کے اس بچارے دسمبر کو پتا ہی نہیں کہ وہ کتنا بے گناہ ہے!
ہم جب تک یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ ہماری غلطیاں ہی ہماری تباہی کی وجہ ہیں، تب تک ایسے ہی شاعر، دانشور، نوجوان، صحافی، علما اور سیاست دان صرف سال کے مہینوں کو کوستے رہیں گے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ یہاں برسوں سے سال کے ہر مہینے میں دسمبر جیسے واقعات ہوتے ہیں، لیکن ہمیں بس وہ واقعات یاد رہتے ہیں جن کو نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کوریج دیتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے!